الأحد، 17 مارس 2013

آدمی صبح کی دو رکعات سنتیں فرض نماز ادا کرنے کے فوری بعد پڑھ سکتا ہے اس حدیث کا حوالہ ذکر کر دیں؟


السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آدمی صبح کی دو رکعات سنتیں فرض نماز ادا کرنے کے فوری بعد پڑھ سکتا ہے اس حدیث کا حوالہ ذکر کر دیں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 
قَالَ الدَّارَقُطْنِیْ فِیْ سُنَنِهِ : حَدَّثَنَا اَبُوْبَکَرِ النَّيْسَابُوْرِیْ ثَنَا الرَّبِيْعُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَنَصْرُ بْنُ مَرْذُوْقٍ قَالاَ : نَا أَسَدُ بْنُ مُوْسٰی ثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ يَحْيٰی بْنِ سَعِيْدٍ عَنْ أَبِيْهِ عَنْ جَدِّه أَنَّه جَائَ وَالنَّبِیُّ ﷺ يُصَلِّیْ صَلاَةَ الفَجر فَصَلّٰی مَعَه فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ فَصَلّٰی رَکْعَتَیِ الْفَجْرِ فَقَالَ لَهُ النَّبِیُّ ﷺ: مَا هَاتَانِ الرَّکْعَتَانِ ؟ قَالَ : لَمْ أَکُنْ صَلَّيْتُهُمَا قَبْلَ الْفَجْرِ- فَسَکَتَ وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا- ص ۳۸۴ الجزء الاول باب قَضَائِ الصَّلاَةِ بَعْدَ وَقْتِهَا وَمَنْ دَخَلَ فِی صَلاَةٍ فَخَرَجَ وَقْتُهَا قَبْلَ تَمَامِهَا کتاب الصلاة
’’حضرت یحییٰ بن سعید اپنے باپ سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک وہ آئے اس حال میں کہ نبی کریم  ﷺ فجر کی نماز پڑھا رہے تھے پس اس نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی پس جب سلام پھیرا اس نے کھڑے ہو کر فجر کی دو رکعات ادا کیں نبیﷺنے اس کو کہا کیا ہیں یہ دو رکعتیں تو اس نے کہا میں نے ان دونوں کو فجر سے پہلے نہیں پڑھا آپ ﷺ خاموش ہو گئے آپ نے کچھ نہ کہا‘‘
سنن دار قطنی کے علاوہ یہ حدیث مستدرک حاکم ، صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابن حبان میں بھی موجود ہے۔ رہی حدیث«لاَ صَلٰوةَ بَعْدَ صَلاَةِ الْفَجْرِ» والی تو اس میں تخصیص ہو چکی ہے خود حنفی حضرات بھی نماز فجر کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے فوت شدہ فرض نماز پڑھنے کے قائل ہیں تو جب اس حدیث «لاَ صَلٰوةَ بَعْدَ صَلاَةِ الْفَجْرِ» والی میں انہوں نے خود تخصیص فرما لی ہے تو مذکور بالا سنن دار قطنی والی حدیث کے ساتھ اس حدیث «لاَ صَلٰوةَ بَعْدَ صَلاَةِ الْفَجْرِ» والی میں اورتخصیص ہو جانے میں کون سی رکاوٹ ہے ؟ پھر غور فرمائیں فجر کی سنتوں کو سورج طلوع ہونے سے پہلے پڑھنا اداء ہے خواہ وہ فجر کے فرضوں کے بعد ہی ہوں کیونکہ جیسے فجر کے فرضوں کا وقت سورج طلوع ہونے تک ہے ویسے ہی فجر کی سنتوں کا وقت بھی سورج طلوع ہونے تک ہی ہے اور فجر کی سنتوں کو سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھنا قضاء ہے تو اب اداء کو چھوڑ کر قضاء کو اپنانا کہاں کی عزیمت یا فضیلت ہے ؟ باقی فرض فجر پڑھ لینے کے بعد سورج طلوع ہونے تک وقت موجود ہوتے ہوئے فجر کی سنتوں کو سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھنے کی کوئی صحیح یا حسن حدیث نہیں ہے۔
وباللہ التوفیق

الأحد، 27 مايو 2012

نمازجنازہ کا آنکھوں ديکھا حال



نمازجنازہ کا آنکھوں ديکھا حال


تحرير : محمد عظيم حاصل پوری
تحرير میں کہاں سمٹتے ہیں دلوں کے درد
يونہی دل کو بہلا رہے ہیں ذرا کاغذوں کےساتھ

جب یہ خبرچلی کہ محدث العصرحافظ عبدالمنان نورپوری اس دارفانی سے کوچ کرچکے ہیں اناللہ واناالیہ راجعون جہاں جہاں یہ المناک خبرپہنچی وہاں وہاں سے لوگ جو پہنچ سکتے تھے انہوں نے محدث نورپوری کی محبت میں جوصرف رضاء الہٰی کی خاطرتھی آخری دیداراورآخری حق اداکرنے کی خاطررخت سفرباندھ لیاملک کے اطراف واکناف سے یہ قافلے چلے جن کی تعدادکاتعین کرنامشکل ہے ان سب کی منزل ومقصدایک تھا۔کہ برلب جی ٹی روڈ متصل جامعہ محمدیہ جناح پارک سرفرازکالونی جہاں حضرت محدث نورپوری  رحمہ اللہ کاآخری حق اداکیاجاناتھا۔امام احمدبن حنبل  رحمہ اللہ فرمایاکرتے تھے کہ:'' ہمارے اورغیروں کے جنازے ہمارے اوران کے درمیان واضح فرق ہیں ''یہ خدائی قانون ہے وہ جس انسا ن سے جتنی محبت کرتاہے اس کے لیے لوگوں کے دلوںمیں بھی اتنی محبت ڈال دیتاہے پھرلوگ پروانہ وارٹوٹ پڑتے ہیں ۔
اس روئے زمین پرصرف علماء کاایک گروہ ایساہے جن کے جنازوں میں حاضرین کی تعدادبکثرت ہوتی ہے اوریہ تعدادبغیرکسی لالچ اورطمع کے حاضرہوتی ہے ۔اسی چیزکودیکھتے ہوئے جناح پارک میں جنازے کاپروگرام بنایاگیا۔جہاں کثیرتعدادمیں لوگوں کی آمدیقینی ہووہاں انتظام وانصرام کاکیاجانابھی لازمی امرہے لہذاحالات کودیکھتے ہوئے سیکورٹی کی ذمہ داری جماعۃ الدعوۃ کے کارکان کے سپردکی گئی تاکہ ہرقسم کی بدنظمی اورہٹوبچوکے شورسے بچاجاسکے ۔
جماعۃ الدعوۃ کے کارکنان نے علی الصبح ہی جنازے کے انتظامات کرنے شروع کردےے تمام پارک میں چونے سے صفیں لگائیں ،لاؤڈسپیکرکابندوبست کیا،پارک کے تین اطراف میں موجودگیٹوں پرسیکورٹی اہل کارکھڑے کیے اورپھرحافظ صاحب کے آخری دیدارکے لیے بہترین سیکورٹی کاانتظام کیا۔ ایک بات جوعام بڑے جنازوں میں ہوتی ہے کہ فوت ہونے والی شخصیت کے فضائل ومناقب جنازے کے موقع پربیان کیے جاتے ہیں تولواحقین نے یہ فیصلہ کیاحافظ صاحب کے جناز ے میں کوئی ایساکام نہ کیاجائے توجووہ خوداپنی دنیاوی زندگی میں پسندنہیں کیاکرتے تھے ۔
کتنے ہی ایسے جنازے دیکھے جن میں حضرت محدث نورپوری شریک ہوئے پھرآپ کووہاں اظہارخیال کی درخواست بھی کی گئی لیکن آپ نے کبھی اپنے تاثرات بیان نہیں کیے ۔اسی بات کومدنظررکھتے ہوئے سٹیج کی ذمہ داری بھی جماعۃ الدعوۃ کے ذمہ داران کواس شرط پرسونپی گئی کہ کوئی تقریراورکوئی بیان نہیں ہوگااورپھرایساہی ہوا۔
ایک اورقابل ذکربات کہ محدث نورپوری  رحمہ اللہ نے کبھی اپنی زندگی میں تصویربنائی اورنہ ہی ویڈیوپھریہ بھی فیصلہ کیاگیاکہ عام جنازوںکی طرح آپ کے جناز ے میں تصویرنہیں بنائی جائے گی اورنہ ہی ویڈیو،جس کے لیے جگہ جگہ یہ بینرز لکھ کرلگادئےے گئے کہ'' حضرت حافظ صاحب کے چہرے کی تصویراورویڈیوبنانامنع ہے'' اورپھراس پربھی سختی کے ساتھ عمل کروایاگیا۔
جوں جوں جنازے کا وقت قریب ہوتاجارہا تھا ملک کے اطراف واکناف سے قافلے پہنچناشروع ہوگئے تھے۔محدث نورپوری  رحمہ اللہ کے جسدخاکی کونماز عصرسے قبل ہی تغسیل وتکفین کے بعدجنازے کی جگہ جناح پارک میں پہنچادیاگیاتھانما زسے قبل بہت سے لوگوں نے حضرت محدث نورپوری  رحمہ اللہ کاآخری دیدارکرلیا۔دیدارکرنے والے سب یہی گواہی دے رہے تھے کہ وفات کے دن آپ کے چہرے کاحسن زندگی کے حسن سے کہیں زیادہ تھا۔
المختصرنماز عصرکاوقت ہوانماز عصراداکی گئی۔نما زکے لیے علماء ،طلباء ،شیوخ الحدیث اورعوام کاٹھاٹھیں مارتاسمندرپارک کی طرف امنڈآیا،جس میں بلاتفریق تمام مذہبی جماعتوں کے قائدین ،امراء اورکارکنان بھی شامل تھے ۔جن کے ناموں کی فہرست بہت لمبی ہے ۔جس سے پارک میں کیے گئے تمام ترانتظامات کم پڑگئے ۔پارک اپنی وسعت کے باوجودتنگ پڑ گیا۔اگلی صفوںمیں موجودلوگ جب پیچھے موجودلوگوں کی آخری صف دیکھنے کی کوشش کرتے توایسا نہ کر پاتے۔
پارک کے دونوں اطراف میں لنک روڈ،جامعہ محمدیہ کی وسیع گراؤنڈ،مرکزابن عباس اوربریلوی مسلک کی مسجدعائشہ اورپارک کے مشرق کی جانب لنک روڈ،اورجی ٹی روڈکے پیچھے تک ان لوگوں کاہجوم تھا۔جو آپ کو خراج تحسین پیش کرنے آئے ہوئے تھے۔
لوگوں کی محبت کااندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ کتنے ایسے افرادجناز ے میں شرکت کے لیے جن کی ٹانگیں ان کابوجھ برداشت نہیں کرسکتی تھیں،کتنے صاحب فراش لوگ جن کے لیے چلناپھرنامحال تھاجنہیں وہیل چیرپربٹھاکرجناز ے میں شرکت کے لیے لایاگیاتھا۔شیخ الحدیث والتفیسرحضرت مولاناثناء اللہ مدنی جنہیں صحت اتنی اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ سفرکریں آپ کے جناز ے میں شرکت کے لیے لاہورسے تشریف لائے ۔
جنازہ کون پڑھائے گا۔؟ سارا دن یہی سوال لوگوں کی زبان زدعام تھاجوں جوں سورج ڈھل رہا تھا لوگوں کا تجسس بڑھ رہا تھا کوئی کہتا کہ یہ جنازہ امیر مرکزی جمعیت حضرت ساجد میر صاحب پڑھائیں گے تو کوئی کہہ رہا تھا کہ نہیں امیر جماعۃ الدعوۃ حافظ محمد سعید صاحب پرھائیں،کوئی کسی شخصیت کا نام لےتا تو کوئی کسی کاہر کوئی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہا تھا۔مگر لواحقین نے اس معاملہ کو اپنے دل میں مخفی رکھا جونہی گھڑی کی سوئیاں حرکت کرتے ہوئے چارکے ہندسے پرپہنچیں تومحدث نورپوری رحمہ اللہ کے دیرینہ ساتھی شیخ الحدیث والتفسیرحافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ  کودعوت دی گئی کہ وہ امامت کے فرائض سرانجام دینے کے لیے آگے تشریف لے آئیں ۔ مولانا عبد الوحید ساجد صاحب اور مولانا عبد الرحمن ساجد صاحب اس اعتبار سے قابل داد ہیں کہ انہوں نے اس جنازے کو سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھایا ۔
حافظ عبدالسلام بھٹوی صاحب نے بھرائی ہوئی آوازمیں اللہ اکبرکہتے ہوئے نماز جنازہ شروع کی ہرطرف سے آہوں اورسسکیوں کی آوازیں بلندہوناشروع ہوگئیں سارامجمع اشکباراورآبدیدہ ہوکرمحدث نورپوری کے لیے دعائے مغفرت ورحمت کررہاتھا۔
مردتومردعورتوں کی ایک کثیرتعدادگھروں کی چھتوں پرموجوداس روح پرورمنظرکودیکھ رہی تھی اوراطلاعات کے مطابق بہت سی عورتوں نے پارک کی متصل مساجدمیں جنازے میں شرکت بھی کی ۔
جونہی نمازجنازہ سے فارغ ہوئے توآخری دیدارکے لیے لوگ بیتاب نظرآئے ہرایک اس کوشش میں تھاکہ وہ آخری دیدارکرلے ۔وقت کی کمی کے باعث بہت سے لوگ یہ حسرت لیے واپس لوٹ آئے ۔پہلے جنازے کے بعدپھرلوگوں کی مسلسل آمدکی وجہ سے دوبارہ پھرنماز جنازہ پڑھائی گئی۔
عام طورپرایساہوتاہے لوگ جنازہ پڑھنے کے بعدواپسی کارخ کرتے ہیں لیکن یہاںمعاملہ اس سے کہیں مختلف تھاحاضرین کی کثیرتعدادقبرپردعا کے لیے ہاشمی کالونی کے قبرستان میں بھی پہنچی ۔دفن کے بعداعلان ہواکہ قبرپردعاکے لیے حافظ اسعدمحمودسلفی صاحب آگے تشریف لے آئیں ۔دعا شروع ہوئی ایک بارپھرآہوں اورسسکیوں کی آوازوں نے قبرستان کو گھیر لیا، خودحافظ صاحب کی ہچکی بندھ گئی ایک عجیب سماں تھاکہ لوگ اپنے پیارے رب کے حضوردعاؤں اورالتجاؤں کے ساتھ حضرت حافظ صاحب کو رخصت کررہے تھے ۔
ابھی دعا سے فارغ ہوئے ہی تھے اطلاع پہنچی کہ کچھ لوگ کویت سے محدث نورپوری  رحمہ اللہ کے جنازے میں شرکت کے لیے آئے تھے لیکن وہ بروقت نہ پہنچ سکے چنانچہ پھرانہوں نے قبرپرہی محدث نورپوری کاجنازہ پڑھااورانکے ساتھ بہت سے وہ لوگ بھی شامل ہوگئے جوملک کے دوردراز علاقوں سے آئے تھے اورجنازے میں شریک نہیں ہوسکے تھے ۔
اللھم اغفروارحمہ وادخلہ الجنۃ الفردوس آمین یارب العالمین
جنازے میں شریک ہونے والے افرادچونکہ دوردرازکے سفرکرکے آئے تھے اس لیے انتظامیہ جامعہ محمدیہ نے ان کے لیے جامعہ محمدیہ میں ہی کھانے کابندوبست بھی کیا۔آخرمیں دعا ء گوہیں کہ اللہ تعالیٰ ان تمام بھائیوں اوربزرگوں کی محنت کوقبول فرمائے جنہوں نے حافظ صاحب کو الوداع کرتے وقت احسن انتظامات کئے اور آنے والے احباب کو تسلی وتشفی کے ساتھ ساتھ آرام دہ ماحول اور ضیافت کا اہتمام کیا ۔ آمین




الأربعاء، 16 مايو 2012

وہ کون اٹھا کہ



یہ کون اٹھا کہ

تحرير۔۔۔۔۔۔:مجيب الرحمن سياف

موت ایک ايسی حقیقت ہے جس سے کسی کو انکار نہيں ايسا امر ہے جس سے کسی کے ليے جا ئے فرار نہيں جس ميں ادنیٰ کی تميز نہ اعلیٰ کاپاس چھو ٹے پر ترس نہ بڑے کا لحاظ جو وقت ديکھتی ہے نہ وقت کی ضرورت بس ايسا وار ہے جس کی زد ميں ان گنت مخلوقات بے شمار جن و بشر آ چکے اور يہ مسلسل اپنے آہنی پنجوں سے مخلوقات کودبوچتی چلی جارہی ہے ،دن رات خبریں ہرسواعلانات کسی نہ کسی کے اس دارفناء سے اٹھنے کے سلسلہ میں پڑھنے اورسننے کوملتے ہیں ۔
ہاں!26فروری کی صبح ایک ایسی ہی خبرمیرے موبائل فون پرمیسج کی صورت میں موصو ل ہوئی کہ محدث العصر،مجتہدمطلق ،فقیہ دوراں،نمونہ سلف،ولی کامل ،متبع سنت ، حضرت العلام حافظ عبدالمنان نورپوری انتقال کرچکے ہیں ۔اناللہ واناالیہ راجعون۔
یہ خبرجنگل میں آگ کی طرح پھیلی یہ خبرسننے اورپڑھنے کے بعدآنکھیں کھلی ہونے کے باوجودچہارسواندھیراہی اندھیرا چھاتا محسوس ہونے لگاکہ مرجع خلائق ،عالم متبحر،علوم وفنون جس کے گھرکی باندیاں ،صدق وصفاکاپیکر،حسن اخلاق کامجسمہ جس کاقول وعمل دین حق کی دعوت ،جوزہدوتقویٰ میں بے مثل ،جوجبل الحفظ ،بروقت استحضارکی صفت سے متصف،فرق باطلہ کے لیے قاطع تلوار،اپنے مدلل اورمسکت جواب سے مدمقابل کولاجوا ب کرنے کی قدرت رکھنے والااورمستجاب الدعوات چہرہ شایداپنی آنکھوں سے پھرنہ دیکھ سکوں۔
ہاں !قحط الرجال کے دورمیں ایسے افرادکااٹھ جانایقینا ناقابل تلافی نقصان ہے مگررضاء الہٰی سمجھ کراسے قبول کئے بغیربھی کوئی چارہ نہیں ۔جب کوئی مشکل مسئلہ درپیش ہوتا فورا استاذی المکرم حضرت حافظ صاحب علیہ الرحمۃ کی طر ف رجوع کرلیا جاتا جس کا کافی وشافی جواب ملنے پردل کواطمینان ہوجاتا۔میں نے استاذی المکرم حضرت حافظ صاحب علیہ الرحمۃ سے ٢٠٠٣ء میں جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں تفسیرالقرآن الکریم ،ـصحیح بخاری جلددوم،تفسیرنیل المرام اوربدایۃ المجتہدپڑھیں۔آپ علیہ الرحمۃ ایک کہنہ مشق استاداورمشفق مربی بھی تھے۔طلبہ کی تعلیم وتربیت پرآپ کی خصوصی نظرہوتی آپ کی یہ کوشش ہوتی کہ طلبہ عبارت پڑھنے میں مہارت،احکام ومسائل میں پختگی حاصل کریں اس کے لیے آپ طلبہ میں مختلف طریقوں سے ذوق مطالعہ پیداکرنے کی کوشش کرتے ۔
ایک چھوٹی سی مثال پیش خدمت ہے ۔ایک مرتبہ کلاس میں تفسیرالقرآن کے درس میں بات چل نکلی کہ بے نماز کافرہے آپ نے دلائل دیئے اورفرمانے لگے کہ میں سعودی عرب زیارت حرمین کے لیے گیاوہاں ایک عرب عالم کے حلقہ درس میں بیٹھنے کا اتفاق ہوااسی مجلس میں ایک سوال کیاگیاکہ بے نمازکاکیاحکم ہے ؟عرب عالم نے جواب دیا''
کافریقتل''بے نماز کافرہے اسے قتل کردیاجائے ۔اس پرراقم نے اپنے قریب بیٹھے ساتھی کے کان میں حدیث پڑھی ''من قال لاالہ الااللہ دخل الجنۃ ''استادمحترم نے سن لیافرمانے لگے کہ کل اس کے بارے میں اچھی طرح پڑھ کرآنا۔اگلے دن دوران کلاس فرمانے لگے کہ مولاناکچھ سمجھ آئی؟میں نے کہاجی!فرمانے لگے کیاسمجھ آئی ہے میں نے پھرحدیث کااگلاحصہ پڑھا''مستیقنابھاقلبہ ''فرمانے لگے ٹھیک ہے ۔
آپ علیہ الرحمۃ حلم وبردباری اورشفقت میں بھی اپناثانی نہیں رکھتے تھے ۔ایک دفعہ کلاس میں کراچی کے ایک طالبعلم ابرارشاہ نے کلاس میں حضرت الاستاذسے گستاخانہ رویہ اختیارکیاانتظامیہ کوخبرہوئی انہوں نے طالب علم کوجامعہ سے خارج کرنے کافیصلہ سنایالیکن جب یہ خبرحافظ صاحب کوہوئی فرمانے لگے میں تواس سے ناراض نہیں ہوں لہذاپھراسے کلاس میں بٹھالیاگیا۔یہ آپ علیہ الرحمہ کی کمال شفقت اورعفوودرگزرکی اعلیٰ مثال ہے ۔
آپ علیہ الرحمۃ محسن ومشفق بھی تھے لیکن سنت کے مخالفین کے لیے سختی کاپہلواختیارفرماتے ۔ہماری کلاس میں چندایسے طلبہ تھے جوڈاڑھی کتراتے تھے ۔حافظ صاحب نے انہیں کلاس سے نکال دیااورفرمایاجب تک توبہ نہیں کروگے ،ڈاڑھی کومعاف کرنے کاعہدنہیں کرتے ہوتب تک میری کلاس میں نہیں بیٹھ سکتے ۔جب طلبہ نے ڈاڑھی کومعاف کرنے کاعہدکیا تب آپ نے کلاس میں بیٹھنے کی اجازت دی ۔
آئيے چلتے چلتے ایک دومثالیں آپ کے رسوخ فی العلم کی بھی دیتے چلیں۔بحرالعلوم شیخ الحدیث والتفسیرمولاناعبداللہ صاحب  رحمہ اللہ سرپرست اعلیٰ مرکزی جمعیت اہل حدیث بانی ومہتمم جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ پاکستان فرمایاکرتے تھے کہ میرے ساتھ کسی مسئلہ میں کوئی بھی گفتگونہیں کرسکتاسوائے حافظ عبدالمنان کے ۔
میرے سامنے ''عزم طلبہ ''کاپہلاشمارہ ہے اوراس کامضمون عربی زبان کی اہمیت صفحہ ١٨پراستاذالعلماء مولاناخالد بن بشیرمرجالوی  حفظہ اللہ(جوکہ اس وقت استادمحترم حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ کی جگہ تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اورآپ علیہ الرحمۃ کے ہونہارشاگردوںمیں سے ہیں )لکھتے ہیں:
''خودہمارے ملک میں بحمداللہ کئی اہل علم اورشیوخ ایسے موجودہیں جنہوں نے یہاں رہ کرتعلیم حاصل کی لیکن ان کی عربی دانی پرعرب لوگ حیران وششدرہیں مثال کے طورپرہمارے شیخ محترم حافظ عبدالمنان نورپوری جامعہ محمدیہ اہل حدیث گوجرانوالہ کے خریج ہیں اورآپ کے فارغ التحصیل ہونے سے پہلے ہی جامعہ والوں نے آپ کومدرس بھی رکھ لیاتھااورتاحال وہاں ہی پڑھارہے ہیں صحیح بخاری پرآپ کی عربی تالیف ''ارشادالقاری الیٰ نقدفیض الباری''حنفی عالم مولاناانورشاہ کاشمیری کی کتاب ''فیض الباری''کے جواب میں ہے ۔میں اس وقت الریاض میں قاری محمدابراہیم بلو چ حفظہ اللہ کی بیٹھک میں تھاکہ ملک شام کے بلندپایہ عالم دین اورشیخ البانی  رحمہ اللہ کے شاگردرشیدشیخ محمدعیدالعباسی جوکہ قاری صاحب کے پڑوس میں رہتے تھے تشریف لائے الماری میں موجودکتابوں کودیکھنے لگے اب ارشادالقاری کی ایک جلدان کے ہاتھ میں تھی میں نے انہیں بتایاکہ یہ ہمارے شیخ کی کتاب ہے کتاب کومختلف مقامات سے دیکھافرمانے لگے :''الشیخ متقن فی اللغۃ ''شیخ عربی میں مضبوط ،ماہرہیں ۔بعض دقیق عبارات کے بارے میں کہنے لگے کہ ان کی ضرورت نہیں تھی میں نے عرض کی ہمارے شیخ دکتورعبدالرحمن الفوزان نے ہمیں بتایاکہ ابن تیمیہ  رحمہ اللہ کی کتابیں پڑھوتووہ کافی دقیق ہیں جبکہ محمدبن عبدالوہاب  رحمہ اللہ کی کتابیں سہل ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ابن تیمیہ  رحمہ اللہ کے مدمقابل ایسے لوگ تھے جن کاجواب انہوں نے انہی کی زبان میں دیاہے جب کہ محمدبن عبدالوہاب  رحمہ اللہ کے مخاطب عام سادہ لوح بدولوگ تھے ۔توچونکہ فیض الباری میں ایسی ابحاث ہیں لہذاجواب بھی اسی انداز سے دیاگیاہے ۔''
استاذی المکرم نورپوری صاحب  رحمہ اللہ اسی کتاب ارشاد القاری میں احناف کے جیدعالم مولاناانورشاہ کاشمیری پرنقدکرتے ہوئے آپ نے سینکڑوں لغت کی اغلاط کی نشاندہی فرمائی ہے جوآپ کے راسخ فی العلم ہونے کی بین دلیل ہے ۔
لکھنے والے توبہت کچھ اپنے اپنے علم کے مطابق صفحہ قرطاس کے حوالے کرچکے ہیں اوربہت سے اہل قلم کتابی صورت میں کریں گے ایک شاگردہونے کی حیثیت سے چندباتیں زیرنوک قلم لایاہوں تاکہ میرانام بھی یوسف کے خریداروں میں شامل ہوجائے ۔
آپ علیہ الرحمۃ کی زندگی پاکیزہ تھی ،معصیت سے کوسوں دور،شکوک وشبہات سے ہمیشہ دامن بچائے رکھتے اگریوں کہہ دیاجائے کہ آپ فرشتہ صفت انسان تھے تویہ بھی مبالغہ نہ ہوگا۔آپ فقیدالمثال ،وحید العصر اور علماء عصر میں سے ممتاز تھے پارسائی والی زندگی گزارکے جب ر اہی عدم ہوئے توہرآنکھ اشکبار،ہردل غمزدہ ،ہرچہرہ مرجھایاہواتھاکہ آج ہمارامحبوب ،ہمارارونق محفل ہمیں داغ مفارقت دے کرچل بساہے جنازے کامنظرایساتھاکہ شورش کاشمیری کی نظم کاایک حصہ یادآیاجوانہوں نے امام الہندابوالکلام آزادکے بارے میں کہی تھی:
یہ کون اٹھاکہ دیر وکعبہ شکستہ دل خستہ گام پہنچے
جھکا کے اپنے دلوں کے پرچم خواص پہنے عوام پہنچے
تیری لحد پہ خدا کی رحمت تیری لحد کو سلام پہنچے

بلاامتیاز ہرفرقہ کے لوگ آپ کے جنازے میں شریک ہوئے جناح پارک بالمقابل جامعہ محمدیہ اپنی وسعت کے باوجودتنگ پڑگیاپارک کے تین اطراف لنک روڈ دائیں طر ف جامعہ محمدیہ کی وسیع گراؤنڈ،بائیں طرف مرکزابن عباس جوکہ مولاناعبداللہ نثارصاحب کے زیرنگرانی چل رہاہے ۔اسی طرح مسجدعائشہ پارک کی بائیں جانب بریلوی مکتب فکرکی ہے سب جگہیں پرتھیں پارک کے سامنے جی ٹی روڈاوراس کے پارمشرق کی جانب بھی لوگوں کی صفیں تھیں لوگوں کااس قدرہجوم حضرت الاستاذرحمہ اللہ کی اللہ کے ہاں اوربندوںمیں مقبولیت کامنہ بولتاثبوت ہے ۔
اللھم اغفرلہ ولنایارب العالمین وارفع درجتہ فی المھدیین وادخلہ الجنۃ مع الصلحاء والنبیین ..آمین یارب العالمین



الأحد، 13 مايو 2012

استاد محترم کی یاد میں


استادِ محترم کی یاد میں
تحریر:حافظ شاہد محمود( گوجرانوالہ)
آج سے پندرہ سال قبل رمضان ١٤١٧ھ؁ میں حضرت حافظ صاحب کو پہلی بار دیکھنے کا موقع ملا، جب آپ جامع مسجد مکرم اہلحدیث، ماڈل ٹاؤن، گوجرانوالہ میں نمازِ تراویح میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔ اس وقت وہاں ہم چند طالب علم جمع تھے تو کسی نے بتایا کہ آج مسجد میں حافظ عبدالمنان نورپوری صاحب بھی نمازِ تراویح ادا کرنے کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کا نام تو سنا ہوا تھا لیکن ان سے ملاقات کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔
حضرت حافظ صاحب نورپوری ۔ رحمہ اللہ ۔ نمازِ تراویح سے فارغ ہوئے تو چند لوگ ان کے پاس آکر بیٹھ گئے اور ان کی مزاج پرسی کرنے لگے ہم طالب علم بھی ان کے پاس جا کر بیٹھ گئے اور ان کی گفتگو سے مستفید ہونے لگے۔ اسی دوران مَیں نے حضرت حافظ صاحب سے دریافت کیا کہ جب امام نماز میں (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَیٰ) کی قراء ت کرے تو مقتدی اس کے جواب میں ''سبحان ربي الأعلٰی'' پڑھے گا یا نہیں؟
یہ سن کر حضرت حافظ صاحب میری طرف متوجہ ہوئے اور امام مسجد کی طرف (جو نمازِ تراویح سے فراغت کے بعد ابھی تک جائے نماز ہی پر بیٹھے ہوئے تھے) اشارہ کرنے کے بعد فرمانے لگے:
''یہ مسئلہ ان سے جا کر پوچھو۔''
میں نے پھر ان سے پوچھا اور جواب دینے پر اصرار کیا لیکن میرے اصرار کے باوجود ان کا یہی جواب تھا کہ یہ مسئلہ انھی سے جا کر دریافت کرو۔[ اس وقت تو حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  نے جواب نہیں دیا، لیکن بعد میں ان سے سنا کہ ان الفاظ (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَیٰ) میں چونکہ تسبیحِ باری تعالیٰ کا حکم دیا جا رہا ہے لہٰذا امام اور مقتدی دونوں ہی اس امر کی بجا آوری میں اس کا جواب دیں گے اور ''سبحان ربي الأعلٰی'' پڑھیں گے، لیکن مقتدی اونچی آواز سے جواب نہ دے۔]
حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کا جواب سن کر کم عمری کے باوجود اس وقت بھی دل میں یہی خیال آیا کہ دراصل آپ کسی دوسرے فرد کی امامت و ریاست والے مقام پر خود نمائی سے گریز کر رہے ہیں۔ اور مدت العمر آپ کا یہی وطیرہ رہا کہ جب آپ کسی جگہ تشریف لے جاتے تو وہاں اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی قطعاً کوئی کوشش نہ کرتے، اور اگر نماز کا وقت ہوتا تو از خود آگے بڑھنے کی کوشش نہ فرماتے، بلکہ اگر کوئی امامت کروانے کے لیے کہتا بھی تو آپ امام مسجد کی اجازت کے بغیر نماز نہ پڑھاتے۔
اسی تواضع اور عجز و انکسار کا نتیجہ تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو عظمت و رفعت اور قبولیت فی الارض جیسے انعامات سے نوازا تھا، جیسا کہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم  کا ارشادِ گرامی ہے:
((مَا تَوَاضَعَ أحَدٌ ِﷲِ إلَّا رَفَعَہُ اﷲُ)) (صحیح مسلم: ٢٥٨٨)
یعنی جو اﷲ تعالیٰ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے، اﷲ تعالیٰ اسے رفعت اور بلندی سے نوازتے ہیں۔
حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کی سیرت و کردار میں اخلاص و للہیت کے ساتھ ساتھ شہرت سے اجتناب اور پر شکوہ القابات سے سخت نفرت جیسے اوصاف حمیدہ بھی پائے جاتے تھے، کیونکہ جو دل تقویٰ اور اخلاص سے معمور ہو، وہاں شہرت اور ریاکاری جیسے مذموم جراثیم نمو پا ہی نہیں سکتے، جیسا کہ امام بشر حافی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
''مَا اتَّقَی اللّٰہَ مَنْ أحَبَّ الشُّھْرَۃَ'' (سیر أعلام النبلاء: ١٩/ ٤٦٩)
جو شہرت کی محبت رکھتا ہے، وہ اﷲ کے خوف سے عاری ہے۔
اور امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
''مَا صَدَقَ عَبْدٌ قَطُّ فَأحَبَّ الشُّھْرَۃَ'' (سیر أعلام النبلاء: ١١/ ١٨)
''جو شخص اپنے علم و عمل میں مخلص اور سچا ہو، وہ ممکن نہیں کہ شہرت سے محبت رکھتا ہو۔''
اسی طرح عبداﷲ بن مبارک رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ  نے مجھے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
''إیَّاکَ وَالشُّھْرَۃَ، فَمَا أتَیْتُ أحَدًا إلَّا وَقَدْ نَھیٰ عَنِ الشُّھْرَۃِ''(سیر أعلام النبلاء: ١٣/ ٢٩٩)    
''شہرت سے بچو، کیونکہ میں جس کے پاس بھی گیا اس نے شہرت سے منع کیا۔''
ائمہ سلف رحمہ اللہ  کے ان ارشادات و نصائح کی عملی تعبیر حضرت حافظ صاحب میں ہر کوئی بخوبی دیکھ سکتا تھا۔ آپ کے طرزِ حیات اور رہن سہن سے گمان ہوتا تھا کہ قرونِ اولیٰ کے قافلے سے بچھڑا کوئی راہی ہے، جو اپنا سفر ایک نامانوس ماحول میں طے کر رہا ہے۔ آپ کے بعد ایسی روشن مثال دیکھنے کو آنکھیں ترستی رہیں گی۔
اب ڈھونڈ اسے چراغ رخ زیبا لے کر
آپ کی ہر ادا سنت نبویہ کی عملی تصویر تھی۔ آپ کو دیکھنے والوں کے دل میں خوفِ خدا اور للہیت پیدا ہوجاتی تھی۔ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے کہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:
((خِیَارُکُمُ الَّذِیْنَ إذَا رُؤوْا ذُکِرَ اﷲُ عَزَّوَجَلَّ)) (سنن ابن ماجہ: ٤١١٩)
''تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جنھیں دیکھ کر اﷲ یاد آئے۔''
اور امام ابو عوانہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
''رَأیْتُ مَحَمَّدَ بْنَ سِیْرِیْنَ فِي السُّوْقِ، فَمَا رَآہُ أحَدٌ إلَّا ذَکَرَ اﷲ'' (المعرفۃ والتاریخ: ٢/ ٦٣)    
''میں نے محمد بن سیرین کو بازار میں جاتے دیکھا تو ہر ایک انھیں دیکھ کر اﷲ کو یاد کرنے لگا۔''
ایسے ہی آپ کی مجلس و محفل میں بیٹھ کر دل دنیا سے بے زار اور آخرت کی طرف مائل ہوجاتا تھا، اور مجلس برخواست ہونے کے بعد محسوس ہوتا تھا کہ دل کی حالت اب ویسی نہیں رہی جو آپ کی صحبت و کلام سے مستفید ہونے سے پہلے تھی۔ ان بابرکت مجلسوں میں دینی مسائل، تربیتی توجیہات اور اخلاقی نصائح کے سوا کوئی اور موضوع زیرِ بحث نہیں آیا کرتا تھا۔ غیبت وچغل خوری اور تنقیص و تشنیع سے مبرا ان مجالس میں ہر کوئی خیر و بھلائی ہی سے اپنا دامن بھرتا۔
علم و عمل کا پیکر:
امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
''إِنَّ سُفْیَانَ سَادَ النَّاسَ بِالْوَرَعِ وَالْعِلْمِ'' (سیر أعلام النبلاء: ٧/ ٢٤٠)
''علم و ورع کی بدولت سفیان (ثوری) نے لوگوں پر حکومت کی۔''
اسی طرح حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  بھی متنوع خوبیوں کے مالک اور گوناگوں اوصاف و خصائل کے حامل تھے، لیکن ان کی سب سے نمایاں خوبی علم و عمل اور زہد و ورع کی جامعیت تھی، جس کی بنا پر وہ اپنے اقران و اماثل اور دیگر معاصرین پر سبقت و فوقیت رکھتے تھے، اور یہ ایسی خوبی ہے جس کی آپ سے ملنے والا اور آپ کو دیکھنے والا ہر شخص شہادت دیتا تھا اور یقینا دیتا رہے گا۔
سالوں پر محیط صحبت و مجالست کے باوصف میں نے نہیں دیکھا کہ آپ سے کبھی کوئی ایسا قول و عمل صادر ہوا ہوجو معصیت کے دائرے اور گناہ کے زمرے میں آتا ہو، کیونکہ آپ کا طرزِ عمل اور رہن سہن مکمل طور پر اﷲ کی توفیق سے صبغۃ اﷲ میں رنگا ہوا تھا، جو ہر دم خیر و بھلائی اور نیکی کے راستے پر گامزن رہتا تھا۔ ایسی شہادتیں ہمیں صرف سلفِ امت کے روشن کردار کے متعلق ہی پڑھنے کو ملتی ہیں، جیسا کہ امام خارجہ بن مصعب رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
''صَحِبْتُ ابْنَ عَوْنٍ أرْبَعًا وَّ عِشْرِیْنَ سَنَۃً، فَمَا أعْلَمُ أنَّ الْمَلَائِکَۃَ کَتَبَ عَلَیْہِ خَطِیْئَۃً'' (سیر أعلام النبلاء: ٦/ ٣٦٦)
''میں چوبیس سال عبداﷲ بن عون کی صحبت میں رہا ہوں، میں نہیں جانتا کہ کبھی فرشتوں نے ان کا کوئی گناہ لکھا ہو۔''
آپ کو دیکھنے والا بھی ہر شخص گواہی دے گا کہ واقعتا آپ بھی ایسی ہی عفت و طہارت کے آبِ زلال میں دھلے ہوئے اور اوصافِ حمیدہ سے متصف تھے۔
حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کا رہن سہن اور عادات و شمائل ایسے تھے کہ گویا آپ ہر دم آخرت کی فکر اور روزِ حشر کے لیے تیاری میں مگن ہیں۔ آپ کے راحت و اطمینان کو دیکھ کر لوگوں کو آپ پر رشک آیا کرتا تھا۔ آپ کے ہر عمل میں اطمینان و سکون کو دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ جیسے آپ آخرت کے لیے مکمل طور پر تیاری کیے ہوئے ہیں۔ آپ کی عملی حالت واقعی ایسی تھی جس کی تصویر کشی امام ہشیم بن بشیر الواسطی رحمہ اللہ  نے منصور بن زاذان رحمہ اللہ  [م ١٣٠ھ] کے بارے میں کی ہے:
''کَانَ مَنْصُوْرٌ، لَوْ قِیْلَ لَہُ: إنَّ مَلَکَ الْمَوْتِ عَلیَ الْبَابِ، مَا کَانَ عِنْدَہُ زِیَادَۃٌ فِي الْعَمَلِ'' (سیر أعلام النبلاء: ٥/ ٤٤٣)
یعنی منصور کو اگر کہا جاتا کہ ملک الموت دروازے پر آپ کی روح قبض کرنے کے لیے پہنچ گئے ہیں تو وہ مزید کوئی نیک عمل کرنے کی کوشش نہ کرتے۔
اتباعِ سنت میں شیفتگی:
حضرت حافظ صاحب نورپوری رحمہ اللہ  کی ایک اور امتیازی صفت اتباع سنت میں ان کی وارفتگی اور فریفتگی تھی۔ وضع قطع، اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے، عادات و اطوار، اخلاق و کردار اور عبادات و معاملات میں آپ کا اتباع سنت کا والہانہ جذبہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ  کی یاد دلاتا ہے۔ جو مسنون امر آپ کے علم میں مستند ٹھہرتا، آپ ہمیشہ اس کا التزام کرتے اور سرمو اس سے انحراف گوارا نہ کرتے۔ مسنون عمل کا تعلق خواہ کسی بڑے عمل سے ہو یا بہ ظاہر وہ معمولی دکھائی دیتا ہو، آپ ہمیشہ اس کی پابندی کیا کرتے تھے۔
 مثلاً حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کھڑے ہو کر جوتا پہننے سے ممانعت والی روایت کو مستند قرار دیتے تھے اور ہمیشہ بیٹھ کر جوتا پہنا کرتے تھے۔ میرے علم کے مطابق تادم وفات آپ نے کبھی کھڑے ہو کر جوتا نہیں پہنا۔اس سلسلے میں ایک بار حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  سے عرض کی کہ اس سلسلے کی مختلف روایات میں تو ہر ایک کی سند میں کوئی نہ کوئی راوی مدلس ہے ؟ آپ فرمانے لگے:''ایک روایت اگر متعدد طرق سے مرسلاً مروی ہو تو تعدد طرق کی وجہ سے اسے تقویت حاصل ہوجاتی ہے، ایسے ہی اگر ایک روایت میں راوی مدلس ہو اور مدلس راویوں والے اس کے متعدد طرق ہوں تو اسے تقویت کیوں حاصل نہیں ہوتی؟''
حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کی سنت سے محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ کسی ایسے شخص کا نکاح نہیں پڑھایا کرتے تھے، جس کا چہرہ سنت نبویہ سے عاری ہو آپ کے اس طرزِ عمل کا نتیجہ تھا کہ کئی لوگوں نے اپنے چہروں کو سنت نبویہ سے مزین کر لیا تھا۔
جب آپ نے جامعہ محمدیہ نیائیں چوک گوجرانوالہ میں درس قرآن اور خطبہ جمعہ کا آغاز کیا تو آپ کے اثر آفرین مواعظ و نصائح کے بدولت کتنے ہی لوگ تھے، جنھوں نے اپنی وضع قطع اور شکل و صورت میں سنت نبویہ کو اختیار کر لیا، بلکہ وہاں کی مجالس میں پہلے زیادہ تر سیاسی اور دنیوی معاملات ہی زیر بحث آیا کرتے تھے، لیکن آپ کے درس و خطابت کے بعد وہاں کی مجالس کا رنگ اس قدر بدل چکا تھا کہ اب عموماً وہاں نفلی روزوں کے اہتمام کی باتیں ہوا کرتی تھیں، کبھی مریضوں کی تیمارداری کے پروگرام بنائے جاتے، بسا اوقات اجر و ثواب کے حصول کی خاطر ایک دوسرے کی دعوتیں کی جاتیں، اور باہم دیگر ڈاڑھی بڑھانے اور اخلاق و عادات میں مسنون اعمال کی ترغیب دی جاتی تھی۔ ایسے متعدد لوگوں کو ہم جانتے ہیں جو آپ کی صحبت و مجالس میں بیٹھنے کے بعد نفلی روزوں اور تہجد کی پابندی کرنے لگ گئے، جس کے نتیجے میں ان کی زندگی کی کایا پلٹ گئی۔
اسی طرح جس مسجد میں حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  بعد نمازِ عشاء درس بخاری اور جامعہ محمدیہ نیائیں چوک میں خطبہ جمعہ شروع کرنے سے پہلے جمعہ پڑھایا کرتے تھے، وہاں بھی ایسا ہی سماں تھا، جو ابھی تک روز افزوں ہے۔ اس انقلاب کا بنیادی سبب یہی سمجھ میں آتا ہے کہ ایک طرف اگر حافظ صاحب رحمہ اللہ  اخلاص و نصیحت کے ساتھ لوگوں میں قرآن و سنت کی تبلیغ و اشاعت کیا کرتے تھے تو ساتھ ہی اپنی عملی زندگی میں تمام مسنون اخلاق و اعمال کی سختی سے پابندی کیا کرتے تھے۔ اسی نہج و سلوک کی برکت تھی کہ آپ کے ماحول میں روحانیت کا احساس گہرا ہوجاتا اور دل بہ خوشی توبہ و انابت الی اﷲ کی طرف متوجہ ہوجاتے۔
زہد و ورع:
اس باب میں بھی حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  مثالی طرزِ عمل کے مالک تھے۔ دنیا اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے باوجود کبھی آپ کو اپنی طرف جھکا نہ سکی۔ دنیوی جاہ و جلال اور مراتب و مناصب پانے کے متعدد مواقع آپ کی زندگی میں آئے، لیکن آپ نے کبھی انھیں پرکاہ کی حیثیت بھی نہ دی۔ ایک بار ملک کی ایک نامور اور مقبول ترین جماعت کے عہدیداران آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے آپ کو عہدہء  امارت کی پیش کش کی، لیکن آپ نے اسے قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ ایسے معاملات میں آپ کے اعراض و استغنا کا یہ عالم تھا کہ آپ اپنے نام کے ساتھ ہر طرح کے القاب و خطابات لگانے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ایسے ہر پروگرام میں درس دینے یا تقریر کرنے سے انکار کر دیتے تھے، جہاں آپ کے لیے کوئی لقب وغیرہ استعمال کیا جاتا تھا۔
استادِ محترم رحمہ اللہ  کے فرزند حافظ عبدالرحمن ثانی صاحب بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ جامعہ محمدیہ کے طالب علم اور حافظ صاحب نورپوری رحمہ اللہ  کے شاگرد قاری محمد حسین صاحب نے اپنے گاؤں جھمبر پتوکی میں آپ سے خطبہ جمعہ کے لیے وقت مانگا تو آپ نے وعدہ کرنے کے ساتھ ہی اسے تنبیہ کی کہ میرے نام کے ساتھ اشتہار یا اعلان میں کوئی لقب شقب نہیں لگانا۔ جب مقررہ تاریخ آئی تو حافظ صاحب رحمہ اللہ  علی الصبح ہی گھر سے روانہ ہوگئے، تاکہ وقت سے پہلے وہاں پہنچ جائیں۔ جب آپ گاؤں کے نزدیک گاڑی سے اترے تو وہی قاری صاحب بڑے بڑے القاب و صفات کے ساتھ اپنی مسجد میں آپ کے خطبہ جمعہ کا اعلان کر رہے تھے۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ تو میں نے ارادہ کیا کہ یہیں سے واپس لوٹ جاؤں، لیکن پھر سوچا کہ لوگ کہیں گے وعدہ کرنے کے باوجود نہیں آیا، چنانچہ میں مسجد کی طرف روانہ ہوگیا۔
جب میں مسجد میں داخل ہوا تو وہی قاری صاحب جو زور و شور سے اعلان کر رہے تھے، مجھے دیکھتے ہی اسپیکر چھوڑ کر میری طرف آئے۔ ان کا چہرہ شرمندگی اور خجالت سے متغیر ہوچکا تھا اور وہ سمجھ گئے کہ میری وعدہ خلافی کا راز فاش ہوچکا ہے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میں اتنی جلدی وہاں پہنچ جاؤں گا۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے انھیں کہا:''آپ نے اپنے وعدے کی خلاف ورزی کی ہے، اس لیے میں آپ کی مسجد میں جمعہ نہیں پڑھاؤں گا۔ اگر آپ اجازت دیں گے تو یہاں جمعہ پڑھ لوں گا، ورنہ میں کسی اور مسجد میں جا کر جمعہ پڑھ لیتا ہوں۔''اسی طرح کا واقعہ حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کے آبائی گاؤں نور پور اور چک گلاں وغیرہ میں بھی پیش آیا۔
ایسی زاہدانہ روش کی رفعت و منزلت اس وقت بہ خوبی عیاں ہوتی ہے، جب ہم اپنے گرد و پیش میں نظر ڈالتے ہیں کہ ہر طرف خسیس دنیوی عہدوں اور مناصب و مراتب پانے کے لیے کس طرح شرعی حدود سے تجاوز کیا جاتا ہے اور اپنی خواہشات کی تسکین کی خاطر ہر ناجائز وسیلہ بروئے کار لایا جاتا ہے۔ ایسی مخدوش صورت حال میں آپ کا طرزِ عمل یقینا ان لوگوں کے لیے مشعل راہ ہے جو ہر طرح کی اخلاقی حدود کو تج کر کے اپنے پسندیدہ عہدوں کی دوڑ میں مارے مارے پھرتے ہیں۔
اسی طرح مالی معاملات میں بھی حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  حددرجہ محتاط اور امانت و دیانت کے بلند مقام پر فائز اور صحیح معنوں میں نمونہ سلف تھے۔ ائمہ سلف کے سیر و سوانح کے مطالعہ کے دوران میں دنیوی اسبابِ عشرت اور مال و دولت سے اعراض کے قصص و حکایات جب نظر سے گزرتے ہیں تو ایسے محیر العقول واقعات خواب و خیال محسوس ہوتے ہیں، لیکن اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ ہماری گناہگار آنکھوں نے ایک ایسی نادر روزگار شخصیت کا دیدار کیا ہے، جس کی زندگی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔
    مدینہ یونیورسٹی میں دورانِ تعلیم میں نے چند ساتھیوں سے استادِ محترم رحمہ اللہ  کا تذکرہ کیا اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ انھوں نے معروف حنفی عالم مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ  کی کتاب ''فیض الباری شرح صحیح البخاری'' پر ''ارشاد القاری إلی نقد فیض الباری'' کے نام سے نقد لکھا ہے، جو ہنوز غیر مطبوع ہے۔ بعض دوستوں نے اس پر بڑی خوشی کا اظہار کیا اور کتاب کی طباعت کے لیے فنڈز جمع کرنے کا وعدہ کیا۔ اس کے بعد جب جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں سالانہ تعطیلات ہوئیں اور میں پاکستان آگیا تو بالفعل ان ساتھیوں نے کتاب کی طباعت کے لیے دو لاکھ تہتر ہزار (٢٧٣٠٠٠) کی خطیر رقم ارسال کر دی اور کہا کہ یہ رقم استادِ محترم حافظ نورپوری رحمہ اللہ  کے حوالے کر دیں، وہ جیسے چاہیں کتاب کی طباعت کا بندوبست کر لیں گے۔
جب میں یہ رقم لے کر حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کی خدمت میں حاضر ہوا اور انھیں ساری صورت حال بتائی تو انھوں نے وہ رقم لینے سے صاف انکار کر دیا اور فرمایا کہ میں ہرگز یہ پیسے اپنے پاس نہیں رکھوں گا۔ آپ لوگ جس طرح چاہیں کتاب کی طباعت کا انتظام کریں...! ہماری سرتوڑ کوشش اور بار بار اصرار کرنے کے باوجود حافظ صاحب رحمہ اللہ  نے وہ رقم لینے سے صاف انکار کر دیا اور اس معاملے میں معمولی دلچسپی کا بھی مظاہرہ نہ کیا۔ اور بالآخر ہمیں ناکام لوٹنا پڑا۔حالانکہ اگر حافظ صاحب رحمہ اللہ  یہ روپے رکھ لیتے اور اسے حسب منشا صَرف کرتے تو کوئی ان سے پوچھ گچھ کرنے اور حساب لینے والا نہیں تھا، لیکن وہ کسی طرح بھی اس پر راضی نہ ہوئے، اور بالآخر ہمیں مولانا محمد طیب محمدی صاحب کے ذریعے سے کتاب کی طباعت کا بندوبست کرنا پڑا اور طباعت کے بعد کتاب معاونین کے پاس سعودی عرب بھجوا دی گئی۔
استغنا کی اس روشن مثال کو ملاحظہ کریں اور ساتھ ہی اپنے اردگرد میں مالی خیانتوں اور خردبرد کے زبان زدِعام قصے سنیں تو حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کا مثالی طرزِ عمل آج کے دور میں یقینا ایک کرامت ہی محسوس ہوتا ہے، جس کی نظیر سلفِ امت میں تو مل سکتی ہے، لیکن آج کے دور میں ایسی مثالیں شاید ہی کہیں دیکھنے کو ملیں۔ إلا من رحم اﷲ...!
   استادِ گرامی مولانا عبداﷲ سلیم حفظہ اللہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہمارے ایک دوست عبدالشکور صاحب (اسلام آباد والے) حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کے پاس ملاقات کے لیے آئے اور کچھ دیر بیٹھنے کے بعد کہنے لگے کہ میں آپ کو کچھ رقم دینا چاہتا ہوں اور میری خواہش ہے کہ آپ جہاں پسند کریں، اسے خرچ کر لیں۔ حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  فرمانے لگے کہ آپ خود جاکر جامعہ محمدیہ میں جمع کروا دیں اور رسید لے لیں۔ وہ دوبارہ کہنے لگے کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھ سے پیسے لے کر حسبِ منشا خرچ کر لیں یا اپنی کوئی کتاب وغیرہ طبع کروا لیں، لیکن حافظ صاحب مرحوم دوسری بار بھی پیسے لینے سے انکار کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ آپ خود جا کر مدرسے میں جمع کروا دیں۔ وہ بندہ مسلسل اصرار کرتا رہا، لیکن حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  اسے ہر بار یہی جواب دیتے رہے اور آپ نے رقم لینے سے صاف انکار کر دیا۔
    ایک دفعہ حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  نے بتایا کہ جماعت والے (انتظامیہ جامعہ محمدیہ) مجھے لے کر ایک مالدار شخص کے پاس گئے تو وہ شخص سب کو بیٹھا کر مجھے ایک علاحدہ کمرے میں لے گیا اور پچاس ہزار روپے نکال کر کہنے لگا کہ میں یہ رقم آپ کو دینا چاہتا ہوں، آپ اس کو حسبِ خواہش خرچ کر لیں۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے اسے کہا: آپ یہ رقم لے کر باہر آئیں اور سب کے سامنے مدرسے کو دے کر اس کی رسید لیں، لیکن وہ بندہ بہ تکرار کہنے لگا کہ میں یہ رقم آپ کو دینا چاہتا ہوں، جس کے جواب میں حافظ صاحب انکار کرتے رہے اور آخر کار مجبور ہو کر اس شخص نے باہر آکر وہ رقم انتظامیہ مسجد کے سپرد کی اور رسید لی۔
    ایک دوست کے ذمے میرا قرض تھا تو اس نے حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کے پاس کسی کے ہاتھ پیسے بھجوا کر مجھے اطلاع کر دی کہ آپ وہاں سے جا کر اپنے روپے وصول کر لیں۔ اگلے دن میں نے برادرِ مکرم حافظ حماد الحق نعیم سے (جو ان دنوں حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  سے صحیح بخاری پڑھتے تھے) کہا کہ وہ حافظ صاحب رحمہ اللہ  سے پیسے لیتے آئیںجب وہ حافظ صاحب سے پیسے لینے گئے تو حافظ صاحب رحمہ اللہ  کہنے لگے کہ مجھے ایک ضرورت پیش آگئی تھی، جس کی وجہ سے وہ پیسے مجھ سے خرچ ہوگئے ہیں۔ جب برادرم حافظ حماد الحق نعیم نے مجھے اطلاع دی کہ حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  نے یہ فرمایا ہے تو یہ سن کر مجھے ایسی فرحت و راحت محسوس ہوئی، جسے لفظوں میں بیان کرنا میرے لیے ممکن نہیں کہ استادِ محترم رحمہ اللہ  نے ہماری مملوکہ کسی چیز کو اپنے مصرف میں لا کر ہمیں سعادت بخشی ہے۔ میں اسی کیف و سرور میں محو تھا کہ میرے موبائل کی گھنٹی بجنے لگی۔ جب میں نے سکرین پر نظر ڈالی تو حضرت حافظ رحمہ اللہ  کا نام موبائل سکرین پر نظر آرہا تھا۔ اسے دیکھ کر میں فوراً سمجھ گیا کہ آج حضرت حافظ رحمہ اللہ  نے صرف پیسوں کی اطلاع دینے کے لیے فون کیا ہے۔ علیک سلیک کرنے کے بعد حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  فرمانے لگے کہ آپ کے پیسے مجھ سے خرچ ہوگئے ہیں، یہ اطلاع دینے کے لیے میں نے فون کیا ہے۔ میں نے عرض کی:''استاد جی! یہ میرے لیے تو بڑی خوشی کی بات ہے، اور حدیث میں آتا ہے کہ:((أَنْتَ وَمَالُکَ لِأَبِیْکَ))حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  اپنے مخصوص انداز میں فرمانے لگے:''حدیث میں ''لِأَبِیْکَ'' آیا ہے، ''لِأُسْتَاذِکَ'' تو نہیں آیا..!''اگلے دن برادرم حافظ حماد الحق نعیم کے گھر میں حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کی دعوت اور صحیح بخاری کی پہلی حدیث پر درس تھا، جب حافظ صاحب رحمہ اللہ  وہاں تشریف لائے تو گاڑی سے اترنے کے بعد فوراً آپ نے حافظ حماد الحق نعیم کو پیسے دےے اور پھر گھر میں داخل ہوئے۔ میں وہاں تاخیر سے پہنچا تھا، بعد میں برادرم حماد الحق نے مجھے ایسے ہی بتایا۔
    ایک دفعہ مدینہ یونیورسٹی سے واپسی پر جامعہ محمدیہ نیائیں چوک میں بعد نمازِ فجر حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کو ملنے گیا تو درس کے بعد فرمانے لگے کہ آؤ آپ کو گھر سے ناشتا کرائیں۔ جب گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہونے لگے تو کسی نے جامعہ محمدیہ جی ٹی روڈ کے لیے گوشت کا ایک پیکٹ بھی رکھ دیا اور ڈرائیور کو ہدایت دی کہ اسے مدرسے میں پہنچا دیں۔ جب گاڑی مدرسے سے گزر کر حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کے گھر کی طرف بڑھنے لگی تو حافظ صاحب رحمہ اللہ  نے ڈرائیور سے کہا: گاڑی روکو۔ پھر فرمایا: واپس مدرسے کی طرف چلو اور وہاں گوشت پہنچاؤ، پھر مجھے گھر لے کر جانا۔ اور ڈرائیور کو مخاطب کر کے فرمانے لگے: میں پہلے بھی آپ کو کئی بار کہہ چکا ہوں کہ جب بھی مدرسے کی کوئی چیز گاڑی میں ہو تو پہلے مدرسے میں وہ چیز دے کر بعد میں مجھے گھر چھوڑنے جایا کرو۔حالانکہ آپ کا گھر مدرسے سے زیادہ دور نہیں تھا، آپ کو گھر چھوڑ کر بھی وہ چیز مدرسے میں جا سکتی تھی، جبکہ ڈرائیور نے گاڑی بھی آپ کو گھر چھوڑنے کے بعد مدرسے ہی میں کھڑی کرنی تھی، لیکن آپ نے اتنا بھی گوارا نہ کیا کہ کوئی شخص مدرسے کی ادنیٰ سی چیز بھی آپ کے گھر کی طرف جاتے ہوئے دیکھے۔
ورع و احتیاط کی ایسی مثالیں شاید ہی کہیں اور نظر آئیں۔ ایسے نصیحت آمیز واقعات میں یقینا ان لوگوں کے لیے عبرت کا سامان ہے جو اپنے زیر نگرانی چلنے والے اداروں کی ہر چیز کو اپنے لیے مالِ مفت دل بے رحم کے مصداق مباح سمجھتے اور ہر طرح سے ان کے وسائل کا استحصال کرتے ہیں۔الغرض ایسے سیکڑوں واقعات ہیں جو حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کے زہد و ورع اور تقویٰ و خشیت الٰہی پر دلالت کرتے ہیں۔
علومِ شریعت میں اتقان و رسوخ:
اﷲ تعالیٰ نے آپ کو علومِ شریعت میں ملکہ راسخہ سے نوازا تھا، جس کی شہادت ہر وہ شخص دے گا جو آپ کے حلقہ درس میں بیٹھنے کی سعادت سے بہرہ ور ہوا ہے یا اسے آپ کی تصانیف کے مطالعے کا موقع ملا ہے۔ حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کی بے نظیر محققانہ تالیف ''إرشاد القاری إلی نقد فیض الباری'' شائع ہونے کے بعد جب عرب علما نے دیکھی تو کہنے لگے کہ اس کتاب سے محدثین کرام کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کی یہ کتاب تمام علوم و فنون کو جامع ہے، جس میں ہر فن کے مباحث پڑھنے کو ملتے ہیں۔ آپ تمام علومِ شریعت میں غیر معمولی مہارت رکھتے تھے، حتی کہ آپ کے اساتذہ کرام بھی آپ کی غیر معمولی قابلیت کے ثنا خواں تھے۔
مولانا عبدالرحمن ضیاء  حفظہ اللہ (فاضل مدینہ یونیورسٹی) بیان کرتے ہیں:''حضرت الاستاذ حافظ صاحب گوندلوی رحمہ اللہ  سے ایک دن ہم طلبہ نے سوال کیا کہ آپ کے شاگردوں میں اس وقت سب سے زیادہ لائق، ذہین اور فطین کون ہے جس پر آپ کو اعتماد ہو۔؟انھوں نے کہا:'' عبدالمنان نورپوری ہے۔ اس نے میری کتاب ''تحفۃ الإخوان'' خود حل کر کے مجھے سنائی ہے، حالانکہ یہ کتاب ایسی دقیق ترین ہے کہ میں نے لکھ کر مولوی عبدالرشید نعمانی حنفی کو بھیجی تھی تاکہ وہ اسے پڑھے اور استفادہ کرے لیکن اسے اس کی سمجھ ہی نہیں آئی تھی، اس نے اسی طرح واپس کر دی۔''
''میں کہتا ہوں کہ حضرت الحافظ محدث گوندلوی رحمہ اللہ  کی مصنفہ کتب میں بعض دقیق ترین عبارتیں بھی پائی جاتیں ہیں، جنھیں ہر معمولی عالم سمجھنے کی استطاعت نہیں رکھتا، اس لیے کہ انھوں نے غامض مسائل پر بھی بحث کی ہے، اور بحث بھی وہ تقلیدی طور پر نہیں کرتے تھے بلکہ مجتہدانہ بصیرت سے گفتگو کرتے تھے جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ یا حافظ ابن القیم یا علامہ ابن حزم یا علامہ ابن الوزیر یمنی وغیرہم محققانہ بحث کیا کرتے تھے۔ لیکن ہمارے شیخ حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ کو اﷲ تعالیٰ نے ایسا راسخ ملکہ عطا فرمایا ہے کہ وہ عام فنی درسی و غیر درسی کتب میں دقیق ترین عبارات کو جلد ہی سمجھ جاتے ہیں اور عام آسان الفاظ ہی میں ان کا مطلب سمجھا دیتے ہیں، اور بات کی تہہ اور مصنفین کی اصلی غرض تک ان کی رسائی جلد ہی ہو جاتی ہے۔ فیض الباری کے حاشیہ میں حضرت الحافظ استاذ محدث گوندلوی رحمہ اللہ  کی عباراتِ غامضہ کا مطلب بھی واضح کر دیتے ہیں، ورنہ کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی کہ وہ حافظ محدث گوندلوی رحمہ اللہ  کی عباراتِ غامضہ کو سمجھ جائے۔ ہمارے شیخ حافظ عبدالمنان نورپوری صاحب کی تنقیدی تعلیقات و فوائد حافظ محدث گوندلوی رحمہ اللہ  کی تعلیقات سے کہیں زیادہ ہیں، جنھوں نے ''ارشاد القاری'' کو ایک خاص رونق و جلا بخشی ہے۔''
(مقالات محدث گوندلوی، ص: ٢٥)
    ایک دفعہ حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  نے بیان کیا کہ جب میں نے اپنے شیخ حافظ صاحب گوندلوی رحمہ اللہ  کو ''تحفۃ الاخوان'' مکمل پڑھ کر سنائی تو میری قراء ت کے دوران میں حافظ صاحب رحمہ اللہ  نے کتاب میں کہیں کوئی تصحیح نہ کروائی۔ صرف ایک مقام پر حافظ صاحب گوندلوی رحمہ اللہ  فرمانے لگے کہ یہ لفظ صیغہ معلوم کے ساتھ ہے، جس پر میں نے عرض کی کہ یہ لفظ صیغہ مجہول کے ساتھ بھی درست معلوم ہوتا ہے۔ حضرت حافظ صاحب گوندلوی رحمہ اللہ  تھوڑی دیر غور کرنے کے بعد فرمانے لگے کہ ہاں یوں بھی درست ہے۔
    جب ہم نے حضرت حافظ صاحب گوندلوی رحمہ اللہ  کی کتاب ''الاصلاح'' شائع کرنے کا ارادہ کیا تو اس میں مختلف علوم و فنون اور منطق و کلام کے مفصل مباحث کی وجہ سے استادِ محترم حافظ نورپوری رحمہ اللہ  سے مراجعت کروانے کا فیصلہ کیا، تاکہ اس میں کسی قسم کی علمی و اصولی اغلاط نہ رہ جائیں۔ جب میں نے اس سلسلے میں حافظ صاحب نورپوری رحمہ اللہ  سے بات کی تو آپ نے عدم فرصت کی بنا پر معذرت کی ۔ پھر میں نے حافظ عبدالسلام بھٹوی حفظہ اللہ  سے کتاب ''الاصلاح'' کے کمپوز شدہ مسودے پر مراجعت کے لیے رابطہ کیا اور کہا کہ اس کتاب میں مختلف علوم و فنون کے دقیق مباحث کی بنا پر ہم چاہتے ہیں کہ آپ طباعت سے پہلے ایک دفعہ اس کی مراجعت فرما دیں تو حافظ عبدالسلام بھٹوی صاحب فرمانے لگے:''بھائی! یہ فنون ہم میں سے صرف حافظ عبدالمنان صاحب ہی بہتر طور پر سمجھتے ہیں، اس لیے آپ انھیں سے مراجعت کروائیں۔''چنانچہ میں دوبارہ حضرت حافظ صاحب نورپوری رحمہ اللہ  کی خدمت میں حاضر ہوا اور کتاب کی مراجعت کے لیے اصرار کیا تو وہ راضی ہوگئے اور انھوں نے کتاب کا مکمل مراجعہ کیا، طباعتی اغلاط کی تصحیح فرمائی اور جا بجا حواشی لکھے، جس میں بعض علمی و اصولی اغلاط کی تصحیح فرمائی، پھر یہ کتاب آپ کی مراجعت کے ساتھ طبع کی گئی۔
    شیخ الحدیث والتفسیر حافظ محمد الیاس اثری حفظہ اللہ  حضرت حافظ صاحب نورپوری رحمہ اللہ  کی وفات کے بعد ایک مجلس میں فرما رہے تھے کہ میں عموماً کئی مسائل کی تحقیق کے لیے آپ کی طرف رجوع کیا کرتا تھا جس کی وجہ سے بڑے بڑے پیچیدہ مسائل کی گتھیاں سلجھ جایا کرتی تھیں آپ میرے لیے بہت بڑا سہارا تھے لیکن اب کوئی ایسا اور نظر نہیں آتا، اور یہ بات درست ہے کہ عوام الناس کے مسائل حل کرنے کے لیے بہت سے علما موجود ہیں، لیکن علما کے مسائل حل کرنے کے لیے ایسی اور کوئی شخصیت نظر نہیں آتی۔
اسی طرح حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کی وفات کے دن آپ کے استاد شیخ الحدیث مولانا عبدالحمید ہزاروی حفظہ اللہ  فرما رہے تھے کہ مجھے کراچی تا خیبر ایسا کوئی اور عالم نظر نہیں آتا، اور اس (حافظ نورپوری رحمہ اللہ ) نے اپنے جیسا کوئی عالم اپنے بعد نہیں چھوڑا۔
غرضکہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو ایسی ذہانت و فطانت اور علوم و فنون میں اس قدر اتقان و رسوخ سے نوازا تھا، جس کی آپ کے اقران و اماثل میں کوئی نظیر نہیں۔
فضیلۃ الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ  رقمطراز ہیں:''فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالمنان صاحب نورپوری حفظہ اللہ  کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ زہدو ورع اور علم و فضل کی جامعیت کے اعتبار سے اپنے اقران و اماثل میں ممتاز ہیں، اﷲ تعالیٰ نے جہاں آپ کو علم و فضل کے ذروہء علیا پر فائز کیا ہے، وہاں آپ کو عمل و تقویٰ کی خوبیوں اور اخلاق و کردار کی رفعتوں سے بھی نوازا ہے، علاوہ ازیں اوائل عمر ہی سے مسند تدریس پر جلوہ افروز ہونے کی وجہ سے آپ کو علوم و فنون میں بھی جامعیت یعنی معقول اور منقول دونوں علوم میں یکساں عبور اور دسترس حاصل ہے۔ زادہ اﷲ علماً و شرفاً وبارک  في حیاتہ وجھودہ وکثر اﷲ أمثالہ فینا.تدریسی و تحقیقی ذوق، خلوص و للہیت اور مطالعہ کی وسعت و گہرائی کی وجہ سے آپ کے اندر جو علمی رسوخ، محدثانہ فقاہت اور استدلال و استنباط کی قوت پائی جاتی تھی، اس نے آپ کو مرجع خلائق بنایا ہوا تھا، چنانچہ عوام ہی نہیں خواص بھی، اَن پڑھ ہی نہیں علماء و فضلاء بھی، اصحابِ منبر و محراب ہی نہیں، اہل تحقیق و اہل فتویٰ بھی مسائل کی تحقیق کے لیے آپ کی طرف رجوع کرتے تھے اور آپ تدریسی و تصنیفی مصروفیات کے باوجودبھی سب کو اپنے علم کے چشمہء صافی سے سیراب فرماتے۔
اخلاق و شمائل
حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  علم و عمل اور سیرت و کردار کے بلند مقام پر فائز تھے، جس کا احاطہ کرنا ہمارے بس میں نہیں۔ تاہم ذیل میں حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کے کردار و عمل اور اخلاق کے حوالے سے بطورِ مشت نمونہ از خروارے چند نمایاں خوبیوں کا ذکر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
    افشاء السلام:
آپ نے اپنے اس عمل کے ذریعے سے کئی مخالفین کے دل موہ لیے اور وہ آپ کے قریب آگئے، جس کی بنا پر انھیں راہِ ہدایت نصیب ہوئی۔ جب آپ نے جامعہ محمدیہ نیائیں چوک میں درس و خطابت کا آغاز کیا تو بعض پہلوان نما، کسی کو خاطر میں نہ لانے والے حضرات آپ کی صاف گوئی اور شرعی مسائل میں دو ٹوک موقف بیان کرنے کی بنا پر آپ سے نالاں رہا کرتے تھے، لیکن آپ آتے جاتے ان کو بھی سلام کرتے اور خیریت دریافت کرتے تھے، چنانچہ وہ رفتہ رفتہ آپ سے مانوس ہوگئے اور آپ کی مجلس میں بیٹھ کر آپ سے فیض یاب ہونے لگے، جس کے نتیجے میں ان کی کایا پلٹ گئی اور وہ اپنے کردار اور صورت و شکل میں پہلے سے کہیں زیادہ سنت کی پابندی کرنے لگے۔
ایک مرتبہ حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  نے بتایا کہ ایک دن میں نماز کے لیے مسجد کی طرف جا رہا تھا تو راستے میں ایک دکاندار نے بلند آواز سے ٹیپ ریکارڈر پر موسیقی لگائی ہوئی تھی، جب اس نے مجھے دیکھا تو گانے کی آواز بند کر دی۔ میں اسے سلام کہنے کے بعد گزر گیا، جب میں نماز پڑھنے کے بعد واپس آیا تو اس کی دکان سے پھر موسیقی کی آواز آرہی تھی، لیکن جب اس نے مجھے دیکھا تو گانے کی آواز بند کردی، جب میں قریب آیا تو میں نے اسے سلام کیا اور کہا: اﷲ کے بندے! تم نے دو بار میری وجہ سے گانے کی آواز بند کی ہے، حالانکہ تم ایسا نہ بھی کرتے تو میں نے تمھیں کیا کہنا تھا؟ تمھیں چاہیے کہ خوفِ خدا رکھتے ہوئے اس عمل سے تائب ہوجاؤ۔ چنانچہ اس دکان دار نے عہد کیا کہ آئندہ میں موسیقی نہیں سنا کروں گا۔
حافظ صاحب رحمہ اللہ عقیدہ و مسلک کا امتیاز کیے بغیر ہرگزرنے والے کو سلام کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے آپ سے پوچھا کہ کیا اہل بدعت کو سلام کہنا درست ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ درست ہے، کیونکہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم  منافقین کو سلام کیا کرتے تھے۔ چنانچہ اس سلسلے میں حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  چھوٹے بڑے، واقف ناواقف اور ہر گزرنے والے کو سلام کہنے میں پہل کیا کرتے تھے، اور اگر کسی جگہ تشریف لے جاتے وہاں موجود قریب و بعید ہر شخص کو آگے بڑھ بڑھ کر سلام کیا کرتے تھے۔
ایک دفعہ جامعہ محمدیہ نیائیں چوک میں بعد نمازِ فجر درس قرآن کے بعد ہم چند لوگ آپ کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ حافظ صاحب رحمہ اللہ  نے باہر سے صوفی عائش محمد صاحب کو مسجد میں داخل ہوتے دیکھا، وہ وضو کرنے کے لیے طہارت خانے کی طرف گئے تاکہ تحیۃ المسجد ادا کرنے کے بعد حافظ صاحب کے پاس بیٹھیں، لیکن آپ کو دیکھنے کے بعد حافظ صاحب اپنی جگہ سے اٹھے اور آگے بڑھ کر صوفی صاحب کو سلام کیا اور ان کو گلے لگایا۔ خیریت دریافت کرنے کے بعد صوفی صاحب آپ سے پوچھنے لگے کہ مجھے کوئی کتاب بتائیں جو میں پڑھا کروں، تو حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  فرمانے لگے: ''آپ صحیح بخاری اور صحیح مسلم پڑھا کریں۔''صوفی صاحب یہ سن کر بڑے محظوظ ہوئے اور کہنے لگے کہ میں نے علامہ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ  سے بھی یہی سوال کیا تھا تو انھوں نے بھی مجھے آپ جیسا جواب دیا تھا۔
اس سلسلے میں حافظ صاحب رحمہ اللہ  کے سینکڑوں واقعات ہیں جن کی برکات کا آپ کے قریب رہنے والوں نے بخوبی مشاہدہ کیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں بھی اسی نہج و عمل کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور ایسے لوگوں کو ہدایت دے جو سلام کرنے اور خصوصاً سلام میں پہل کرنے میں ۔معاذ اﷲ۔ اپنی ہتک خیال کرتے ہیں۔
  بیمار پرسی:
حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کی عادت تھی کہ جامعہ محمدیہ نیائیں چوک میں بعد نمازِ فجر درس قرآن سے فراغت کے بعد عموماً تیمارداری کے لیے جایا کرتے تھے۔ شیخ محمد یوسف رحمہ اللہ  وان سوتر والے (صدر جامعہ محمدیہ) بھی آپ کے ساتھ ہی نمازِ فجر کے لیے گاڑی پر آیا جایا کرتے تھے۔ درس سے فراغت کے بعد جب حافظ صاحب کسی بیمار کی مزاج پرسی کرنے جاتے تو وہ از راہِ خوش طبعی کہا کرتے تھے:''حافظ صاحب! اگر آپ کو معلوم ہوجائے کہ فلاں شخص کا گدھا بیمار ہے تو آپ ضرور اس کی بھی عیادت کرنے چلے جائیں گے..!''
اس سلسلے میں آپ کی عادت تھی کہ جب آپ کسی دوسرے شہر میں درس و تبلیغ کے لیے تشریف لے جاتے تو عموماً وہاں درس کے بعد کسی مریض کی عیادت کرنے کے بعد واپس آیا کرتے تھے۔
ایک دفعہ حافظ صاحب رحمہ اللہ  معروف محقق ڈاکٹر شمس الدین افغانی رحمہ اللہ  کی عیادت کرنے پشاور گئے تو انھوں نے آپ سے معانقہ کیا اور آپ کو پیشانی پر بوسہ دیا، اور کافی دیر وہاں علمی باتیں ہوتی رہیں۔ اثنائے گفتگو میں ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ حافظ صاحب! آپ نے اپنی کتاب
''ارشاد القاری إلی نقد فیض الباری'' میں بڑا نرم انداز اپنایا ہے۔ کاش یہ میری تالیف ہوتی...! (کیونکہ ڈاکٹر شمس الدین صاحب کے مزاج میں تشدد کا عنصر غالب تھا)
حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کی عادت تھی کہ اگر اپنے رفقا میں سے کوئی شخص نظر نہ آتا تو اس کی خیریت دریافت کیا کرتے تھے، اور اگر وہ بیمار ہوتا تو اس کی عیادت کے لیے اُس کے گھر چلے جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ مدینہ یونیورسٹی میں تعطیلات کے دنوں میں مَیں نے جامعہ محمدیہ نیائیں چوک میں درس قرآن کے بعد آپ سے آپ کی کتاب ''نخبة الأصول تلخیص إرشاد الفحول'' پڑھنی شروع کی تو اس دوران میں مَیں چند دن حاضر نہ ہوسکا، حافظ صاحب رحمہ اللہ  نے ہمارے دوست مولانا عثمان غنی صاحب سے کہا کہ پتا کرو کہیں وہ بیمار تو نہیں ہیں؟
    نمازِ جنازہ کا اہتمام:
عموماً لوگوں کی خواہش ہوتی تھی کہ نمازِ جنازہ حضرت حافظ صاحب نورپوری رحمہ اللہ  سے پڑھوائیں ، چنانچہ اس ضمن میں لوگ اپنی وصیت میں آپ کا نام لکھا کرتے تھے، جس کی مثالیں سینکڑوں سے متجاوز ہیں۔ ابھی چند ماہ قبل معروف عالم دین مولانا حافظ محمد اسماعیل صاحب حافظ آبادی فوت ہوئے تو ان کی وصیت تھی کہ میرا جنازہ حافظ عبدالمنان نورپوری صاحب پڑھائیں۔
ایک دفعہ آپ پر فالج کا حملہ ہوا تو آپ چند دن ہسپتال میں زیرِ علاج رہ کر گھر واپس آئے اتفاق سے جب آپ گھر پہنچے تو تھوڑی دیر کے بعد ایک شخص آپ کو نمازِ جنازہ پڑھوانے کے لیے لینے آگیا، آپ فوراً تیار ہوگئے، آپ کے گھر والے آپ کو روکتے رہے، لیکن آپ نمازِ جنازہ پڑھانے چلے گئے۔
اگر آپ نے جنازہ نہ بھی پڑھانا ہوتا، پھر بھی بڑے اہتمام سے نمازِ جنازہ میں شرکت کرتے تھے اس سلسلے میں دور دراز کا سفر بھی کرتے اور ہر جگہ قبل از وقت پہنچنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ جب مولانا محمد حسین شیخوپوری رحمہ اللہ  فوت ہوئے تو ہم نے جنازے کے بعد آپ کو فیصل آباد میں ایک پروگرام میں لے کر جانا تھا، جب ہم قدرے تاخیر سے گاڑی لے کر آپ کے گھر پہنچے تو آپ نے ناراضی کا اظہار کیا اور فرمانے لگے کہ ہمیں وہاں پہلے پہنچنا چاہیے تھا، تاکہ مولانا شیخوپوری رحمہ اللہ  کے ورثاء سے ملتے اور ان سے اظہارِ افسوس کرتے۔ آپ کے ساتھ متعدد مرتبہ نماز جنازہ میں شمولیت کا موقع ملا، لیکن کبھی نہیں دیکھا کہ آپ نے اپنے آپ کو نمایاں کر کے یا کسی اور طرزِ عمل سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہو کہ آپ کو نمازِ جنازہ پڑھانے کا موقع ملے، حالانکہ کئی لوگ آگے بڑھ کر خود کو اس انداز سے نمایاں کرتے ہیں، بلکہ بسا اوقات اپنی زبان سے کہہ دیتے ہیں، بالخصوص کسی بڑے جنازے میں تو لوگوں سے الجھ پڑتے ہیں کہ نمازِ جنازہ انھیں پڑھانے دی جائے، لیکن حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  ان تمام رذائل اور صفات مذمومہ سے پاک تھے، آپ جتنا چھپتے تھے، لوگ اتنا آپ کو ڈھونڈتے اور آپ جس قدر پیچھے ہٹتے، لوگ اس سے کہیں زیادہ محبت و عقیدت کے ساتھ آپ کو آگے کیا کرتے تھے۔
    مہمان نوازی:
حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کی عادت تھی کہ ہر آنے والے مہمان کی موسم کے مطابق مہمان نوازی کیا کرتے تھے۔ کوئی بڑا ہو یا چھوٹا، واقف ہو یا ناواقف، جیسے ہی آپ کے گھر میں داخل ہوتا، آپ فوراً اپنے چھوٹے بیٹے عبداﷲ کو آواز دیتے اور کوئی مشروب لانے کا کہا کرتے تھے، اور اگر کوئی بچہ گھر میں نہ ہوتا تو مہمان کو دیکھ کر فوراً کھڑے ہوتے اور خود برتن اٹھا کر مہمان کو کھانا یا چائے پیش کیا کرتے تھے۔
یہ آپ کا ایسا متواتر و محبوب عمل تھا کہ آپ کے گھر میں آنے والا شخص ممکن ہی نہیں کہ کچھ کھائے پیے بغیر واپس آیا ہو۔ اور اگر کوئی شخص نماز مغرب کے بعد آپ کے گھر جاتا تو آپ اسے کھانا کھلایا کرتے تھے آپ کے طرزِ عمل سے یوں محسوس ہوتا تھا کہ نماز مغرب کے بعد آپ اس انتظار میں تھے کہ کوئی مہمان آئے تو اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ کسی پروگرام سے واپسی پر حافظ صاحب رحمہ اللہ  کو ان کے گھر اتارنے گئے تو بصد اصرار اندر بٹھایا اور مشروب سے تواضع کی، بلکہ جب واپسی پر گاڑی میں متعدد افراد ہوتے تو راستے ہی میں گھر والوں کو فون پر وقت کی مناسبت سے چائے یا کھانا تیار کرنے کا کہہ دیا کرتے تھے کہ ہم اتنے افراد اتنی دیر تک گھر پہنچ رہے ہیں، ہمارے آنے تک چائے یا کھانا تیار کر دیں۔
حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حافظ عبداﷲ شیخوپوری صاحب ہماری مسجد میں تقریر کرنے آئے تو جلسہ ختم ہونے کے بعد میں نے گزارش کی کہ آج رات آپ ہمارے گھر میں بسر کریں اور صبح واپس جائیں، لیکن حافظ صاحب فرمانے لگے کہ صبح نماز کے بعد ہمیں بہت دیر ہوجائے گی، اس لیے ہم ابھی جانا چاہتے ہیں۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں: میں نے کہا کہ آپ فکر نہ کریں، نماز پڑھنے کے فوراً بعد آپ چلے جائیں، آپ لیٹ نہیں ہوں گے۔حافظ صاحب نورپوری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ جب نمازِ فجر کے لیے ہم بیدار ہوئے اور حافظ شیخوپوری صاحب طہارت خانے میں وضو کرنے گئے، تو ہم نے ان کے آنے تک دستر خوان لگا کر وہاں کھانا لگا دیا ہوا تھا، جب حافظ شیخوپوری رحمہ اللہ  کمرے میں داخل ہوئے تو وہاں کھانے سے مرصع دستر خوان دیکھ کر بڑے حیران ہوئے۔ میں نے کہا کہ حافظ صاحب میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ آپ صبح لیٹ نہیں ہوں گے اور آپ نمازِ فجر کے فوراً بعد چلے جائیں، اس لیے آپ کا ناشتہ تیار ہے، آپ نماز کے فوراً بعد نکل سکتے ہیں۔ حافظ شیخوپوری صاحب یہ سب دیکھ کر بڑے حیران اور محظوظ ہوئے اور ناشتہ کرنے کے بعد نمازِ فجر ادا کرتے ہی روانہ ہوگئے۔
   نوافل کا اہتمام:
حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  سنن و نوافل کا غیر معمولی التزام کیا کرتے تھے جب آپ فجر کی نماز کے بعد درسِ قرآن سے فارغ ہوتے تو آپ کے اردگرد لوگ مسائل دریافت کرنے کے لیے بیٹھ جاتے، اسی دوران میں جب نمازِ اشراق کا وقت ہوتا تو دو نفل پڑھ کر گھر روانہ ہوتے تھے۔ اسی طرح حافظ صاحب رحمہ اللہ  سنن رواتب کا بھی شدید التزام کیا کرتے تھے، اگر کسی مصروفیت کی بنا پر نماز سے قبل سنن رواتب ادا نہ کر پاتے تو فرض نماز ادا کرنے کے بعد نماز سے پہلے والی نفلی رکعات کی قضا دیا کرتے تھے، اور سفر میں آپ نمازِ فجر سے پہلے دو رکعات اور بعد نمازِ مغرب بھی دو رکعات پڑھا کرتے تھے۔
حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  مدت العمر نمازِ تہجد کی پابندی کرتے رہے، تہجد میں آپ زیادہ سے زیادہ وتر سمیت تیرہ رکعات پڑھنا مسنون قرار دیتے تھے۔ نمازِ تہجد میں آپ عموماً کم و بیش ربع پارہ تلاوت کرتے، جبکہ رمضان میں سحری سے پہلے آپ دو رکعتوں میں دو پارے سنایا کرتے تھے۔
    نفلی روزوں کا التزام:
حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کثرت سے نفلی روزے رکھتے تھے کئی بار ڈاکٹروں نے بیماری کی بنا پر نفلی روزے ترک کرنے کا مشورہ بھی دیا، لیکن آپ حتی الوسع ان کی پابندی کرتے رہے۔ آپ سوموار، جمعرات، جمعہ اور ایام بیض (چاند کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ) کے روزے رکھا کرتے تھے۔ اور شعبان کے اکثر اور ماہِ محرم کے مکمل روزے رکھتے۔ اسی طرح ذوالحجہ کے بھی نو روزے رکھا کرتے تھے۔ آپ کے اس مبارک عمل کی بنا پر لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے نفلی روزوں کا اہتمام شروع کیا میں متعدد ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جن کی اس مسنون و مبارک عمل کی وجہ سے کایا پلٹ گئی اور وہ اپنی سیرت و کردار میں مکمل طور پر شریعت کی پابندی کرنے لگے۔
    قرآن مجید سے غیر معمولی شغف:
آپ نے علوم دینیہ کی تکمیل کے بعد قرآن مجید حفظ کیا تھا۔ حافظ عبدالرحمن ثانی صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب آپ جامعہ شرعیہ (دال بازار گوجرانوالہ) میں مدرس تھے تو فارغ وقت میں آپ نے قرآن مجید حفظ کرنا شروع کر دیا۔ حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے حفظ القرآن کا آغاز کیا تو رمضان شروع ہونے میں پانچ چھ ماہ باقی تھے، چنانچہ میں نے عزم مصمم کیا کہ رمضان سے پہلے حفظ القرآن مکمل کرنے کے بعد نمازِ تراویح میں سناؤں گا۔ آپ نے پہلے تیسویں پارے سے لے کر اکیسویں پارے تک دس پارے حفظ کیے اور پھر پہلے پارے سے لے کر اٹھارہویں پارے تک اٹھارہ پارے رمضان سے پہلے مکمل حفظ کر لیے۔
حافظ صاحب رحمہ اللہ  بیان کرتے ہیں کہ رمضان کا چاند طلوع ہو گیا، لیکن میں انیسواں اور بیسواں پارہ حفظ نہ کر سکا، پھر بھی میں اپنے گاؤں نورپور نمازِ تراویح میں قرآن مجید سنانے چلا گیا۔ فرماتے ہیں کہ میں نے اٹھارہ دنوں میں اٹھارہ پارے نمازِ تراویح میں سنا دیے، اور جب انیسویں اور بیسویں پارے کی باری آئی تو صبح سے لے کر شام تک یاد کر کے میں نے باری باری یہ دونوں پارے بھی سنا دیے، پھر بقیہ دنوں میں مکمل قرآن مجید بھی نمازِ تراویح میں سنا دیا۔
قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد نمازِ تہجد میں آپ بالالتزام اس کی تلاوت کرتے اور کبھی آپ نے اس سلسلے میں لا پرواہی نہیں کی۔ آپ نے مسلسل کئی برس تک نمازِ تراویح میں قرآن مجید سنایا اور ایک دفعہ چھٹیوں میں آپ نے قاری محمد یونس پانی پتی رحمہ اللہ  سے دورہ تجوید بھی کیا۔ بعد ازیں آپ کا معمول یہ تھا کہ ہر سال رمضان میں سحری سے پہلے دو رکعتوں میں باجماعت دو پارے سنایا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  فرمایا کرتے تھے کہ اول وقت سے پچھلا پہر نماز کے لیے افضل ہے اور اکیلے پڑھنے سے باجماعت پڑھنا بہتر ہے اور مسجد میں پڑھنے کی بجائے گھر میں نفل نماز ادا کرنا اولیٰ ہے۔ اس لیے اگر کوئی بندہ بعد نمازِ عشاء کے بجائے پچھلے پہر باجماعت نمازِ تہجد و تراویح گھر میں پڑھ لے تو یہ سب سے افضل ہے۔
حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  رمضان شروع ہونے کے بعد اپنے تصنیفی و علمی کام چھوڑ کر سارا  وقت قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول رہا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک شخص آپ کے پاس آیا اور اپنی کتاب نظر ثانی کے لیے آپ کی خدمت میں پیش کی تو حافظ صاحب رحمہ اللہ  فرمانے لگے کہ رمضان میں تلاوتِ قرآن کی مصروفیت کی بنا پر میرے پاس وقت نہیں ہوتا۔
حافظ عبدالرحمن ثانی صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے حفظ القرآن مکمل کیا تو والد صاحب رحمہ اللہ  رمضان میں مجھے نورپور لے گئے اور نمازِ تراویح میں میرے پیچھے کھڑے ہو کر آپ نے مکمل قرآن مجید سنا، اور اگلے سال مجھے وزیر آباد لے جاکر بھی مکمل قرآن مجید سنا، پھر کئی بار اپنی مسجد قدس اہلحدیث سرفراز کالونی میں میرے پیچھے کھڑے ہو کر قرآن مجید سنتے رہے۔
حضرت حافظ رحمہ اللہ  کے دونوں بیٹے اور چار بیٹیاں ما شاء اﷲ حافظ قرآن ہیں اور تمام بیٹیوں کو آپ نے گھر ہی میں خود حفظ کروایا تھا۔آپ کی دو بےٹےوں نے چار ماہ اور دو نے چھ ماہ میں آپ سے مکمل قرآن حفظ کیا تھا۔
علاوہ ازیں حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  چودہ سال جامعہ محمدیہ نیائیں چوک میں بعد نمازِ فجر درسِ قرآن دیتے رہے۔ آپ نے ترتیب وار سورت فاتحہ سے درسِ قرآن کا آغاز کیا اور وفات سے قبل سورت فاطر کی آیت (اَفَمَنْ زُیِّنَ لَہ سُوْۤءُ عَمَلِہٖ فَرَاٰہُ حَسَنًا فَاِنَّ اللّٰہَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ فَلَا تَذْھَبْ نَفْسُکَ عَلَیْھِمْ حَسَرٰتٍ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌم بِمَا یَصْنَعُوْنَ) [الفاطر: ٨] پر درس دیا تھا۔ بحمداﷲ تعالیٰ آپ کے یہ تمام دروسِ قرآن اور خطباتِ جمعہ جامعہ محمدیہ نیائیں چوک میں آڈیو کیسٹوں میں ریکارڈ شدہ موجود ہیں، جن میں سے تاحال صرف سورت فاتحہ کی تفسیر طبع ہوئی ہے۔
اسی طرح حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  جامعہ محمدیہ (جی ٹی روڈ) میں صحیح بخاری کے طلبہ کو بھی ایک سال میں مکمل قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر بھی پڑھایا کرتے تھے۔ نیز آپ نے علوم القرآن کے سلسلے میں ایک مستقل کتاب ''زبدۃ التسفیر لوجہ التفسیر'' بھی تالیف کی جو مطبوع ہے۔
   جود و سخا:
حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  اپنی استطاعت کے مطابق فراخ دلی سے اﷲ کے راستے میں خرچ کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ کسی نے آپ کو اشیاء ِخور و نوش کی ایک کثیر مقدار تقسیم کرنے کے لیے بھجوائی تو آپ نے وہ تمام اشیا محلے میں بانٹ دیں اور کوئی معمولی سی چیز بھی اپنے گھر والوں کو نہ دی۔
آپ ہر ماہ باقاعدگی سے جامعہ محمدیہ کے لیے ایک مخصوص رقم دیتے اور نمازِ جمعہ کے بعد بھی باقاعدگی کے ساتھ مسجد کے فنڈ میں حصہ ڈالتے تھے۔ اس سلسلے میں حضرت حافظ رحمہ اللہ  حدیث نبوی
((مَنْ أنْفَقَ زَوْجَیْنِ فِي سَبِیْلِ اﷲِ نُوْدِيَ مِنْ أبْوَابِ الْجَنَّۃِ...)) سے استدلال کرتے ہوئے کسی بھی مالیت کے دو نوٹ مسجد کے فنڈ میں جمع کرایا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ انتظامیہ مسجد محمدیہ نے آپ کی بیماری کی وجہ سے شدید اصرار کر کے آپ کو ایک خطیر رقم دی تو آپ نے رقم لینے کے بعد جامعہ محمدیہ کے فنڈ میں جمع کروا دی۔ اسی طرح جب آپ نے اپنی بیٹھک کی دیواروں میں کتابوں کے لیے الماریاں بنا لیں تو لوہے کی الماریاں (جو اچھی خاصی مالیت کی تھیں) جامعہ محمدیہ کو دے دیں، جو آج بھی اسلامی دارالمطالعہ نیائیں چوک میں موجود ہیں۔
   حق گوئی:
آپ صاف گوئی کے عادی اور حق بیانی کے خوگر تھے۔ جب بھی کہیں کوئی خلافِ شریعت امر دیکھتے تو فوراً اسے روکنے کی کوشش کرتے۔ایک دفعہ آپ نے بتایا کہ میں ایک مرتبہ بس میں سوار تھا تو ڈرائیور نے ٹیپ ریکارڈ پر گانے لگا دیے۔ میں نے کنڈیکٹر کو سمجھایا کہ گانے بند کردو، اس نے موسیقی بند کر دی، لیکن تھوڑی دیر کے بعد پھر موسیقی کی آواز آنے لگی، میں نے دوبارہ اسے منع کیا تو کہنے لگا کہ حافظ صاحب میں کیا کروں...؟ آپ موسیقی لگانے سے روکتے ہیں اور دوسری سواریاں موسیقی لگانے پر اصرار کرتی ہیں، آپ ہی بتائیں میں کس کی بات مانوں؟ حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے اسے کہا کہ تم ہم دونوں میں سے کسی کی بات نہ مانوں بلکہ صرف اﷲ اور اس کے رسول کی بات مانو، چنانچہ وہ سمجھ گیا اور اس نے گانے بند کر دیے۔
اگر حافظ صاحب رحمہ اللہ  موبائل ٹیونز میں کوئی موسیقی والی آواز سنتے تو فوراً ٹوک دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ حافظ صاحب کے ساتھ ہم چند ساتھی ایک دعوت میں شریک تھے کہ اسی دوران میں مجلس میں شریک ایک عالم دین کے موبائل پر موسیقی والی گھنٹی سنائی دی تو حافظ صاحب انھیں مخاطب کرنے کے بعد فرمانے لگے:''مولانا! یہ آپ کے شایانِ شان نہیں ہے...!''
ایک مرتبہ حافظ صاحب رحمہ اللہ  کی گلی میں ہیجڑے آئے تو آپ نے انھیں ناچ گانے سے منع کیا، جس کے جواب میں انھوں نے آپ سے بدتمیزی کا مظاہرہ کیا تو حافظ صاحب رحمہ اللہ  نے ان سے لڑائی مول لے لی، ان میں سے ایک کی پٹائی کر دی اور ان کا ناچ گانا بزور بند کرا دیا۔ کچھ دیر بعد جب جامعہ محمدیہ کے طلبا کو معلوم ہوا تو انھوں نے راستے میں ہیجڑوں کو پکڑ کر ان کی خوب چھترول کی۔ ایسے ہی جب آپ کے سامنے والے گھر میں (جو آپ کے ایک عزیز کی ملکیت تھا) رہائش پذیر کرائے داروں نے اپنے گھر میں کیبل لگوانا چاہی تو آپ نے انھیں زبردستی روک دیا۔
    فراخ دلی:
آپ کی شخصی صفات میں یہ ایسی خوبی تھی جس کی بنا پر بے شمار لوگ آپ کے گرویدہ اور آپ سے بے پناہ محبت و عقیدت رکھتے تھے۔ آپ کا دل تمام رذائل سے محفوظ اور خصائل حمیدہ سے معمور تھا، آپ کے طرزِ عمل سے کبھی دوسروں کے لیے حسد، کینہ، بغض جیسے مکروہ عزائم کا احساس نہیں ہوتا تھا۔
اﷲ تعالیٰ نے آپ کو دل کی وسعت و طہارت اور عفت سے نوازا تھا، جب بھی آپ کے پاس کوئی طالب علم یا عالم دین راہنمائی کے لیے آتا تو آپ بشاشت قلبی اور وسعت ظرفی سے اس کے ساتھ تعاون کرتے اور خصوصاً علمی و دینی منصوبہ جات میں دوسروں کی مکمل حوصلہ افزائی فرماتے، اسی وجہ سے ہر کوئی آپ ہی سے مشورہ کرنے اور راہنمائی کا متلاشی ہوتا، کیونکہ سب کو معلوم تھا کہ آپ جیسی خیر خواہی، فراخ دلی کا حامل اور راز داری کا پاسبان شاید ہی کہیں اور ملے۔حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  اپنے تلامذہ اور معاصر علماء کی علمی کاوشوں کے قدرداں اور دل کھول کر ان کی تعریف کیا کرتے تھے۔
استادِ محترم نورپوری رحمہ اللہ  اپنی بے نظیر کتاب ''إرشاد القاري إلی نقد فیض الباري'' (٤/ ٩٤) میں لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ  کی کتاب ''إرواء الغلیل'' کی ایک عبارت کی سیاق و سباق سے مناسبت سمجھ میں نہیں آرہی تھی، میں کئی دن اس عبارت کو سمجھنے کے لیے غور و فکر کرتا رہا، لیکن کوشش بسیار کے باوجود اس عبارت کی سیاق و سباق سے مناسبت مجھے سمجھ نہ آئی۔ اسی دوران میں مولانا عبدالرحمن ضیاء (استاذ الحدیث بجامعۃ شیخ الاسلام ابن تیمیہ لاہور) مجھے ملنے آئے تو میں نے عبارت کھول کر ان کے سامنے رکھی اور کہا کہ یہ عبارت اپنے سیاق و سباق کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی۔حافظ نورپوری رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:''انھوں نے کتاب لے کر دیکھی، اس کے آگے پیچھے سے متعدد صفحات دیکھے، پھر مختلف کتب: سبل السلام، نیل الأوطار اور تلخیص الحبیر کا متواتر تین گھنٹے تک مراجعہ کرتے رہے، تب جاکر انھیں سمجھ آئی کہ یہاں کتاب کی عبارت میں طباعت کے وقت تقدیم و تاخیر ہوگئی ہے۔ چنانچہ اس طرح وہ عبارت حل ہوگئی۔''تفصیل کے لیے شائقین ''إرشاد القاري'' کا محولہ بالا صفحہ دیکھ سکتے ہیں۔ ہمارا مقصود یہ ہے کہ مولانا عبدالرحمن ضیاء حفظہ اللہ  حضرت حافظ صاحب نورپوری رحمہ اللہ  کے شاگرد ہیں، اس کے باوجود آپ اپنی کتاب میں صراحتاً ان کا نام لے کر بتاتے ہیں کہ اس عبارت کو انھوں نے حل کیا تھا۔ پھر مزید دیکھیں کہ حافظ صاحب نوپوری رحمہ اللہ  یہ ساری روداد لکھنے کے بعد انھیں دعائیہ کلمات سے نوازتے ہوئے فرماتے ہیں:''فجزی اﷲ تبارک و تعالیٰ عبدہ عبد الرحمن الضیائ، جزاء حسنا، وأذھب أشجانہ وأحزانہ، إذھاباً عاجلاً کاملاً'' (إرشاد القاري: ٤/ ٩٤)
اسی طرح ایک دفعہ حضرت حافظ صاحب نوپوری رحمہ اللہ  جامعہ محمدیہ نیائیں چوک میں خطبہ جمعہ کے دوران میں فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کی تردید کر رہے تھے تو فرمانے لگے کہ اس موضوع پر مولانا صفدر عثمانی صاحب نے (جو حافظ صاحب رحمہ اللہ  کے شاگرد ہیں) ایک رسالہ لکھا ہے، آپ لوگ اسے پڑھیں۔ اسی طرح آپ نے اپنے متعدد خطوط میں (جو اَب آپ کی کتاب ''احکام و مسائل'' میں مطبوع ہیں) کئی لوگوں کو مولانا صفدر عثمانی صاحب کے مذکورہ رسالہ کی طرف مراجعت کا مشورہ دیا۔
    غیبت سے شدید نفرت:
حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  اپنی مجلس میں کسی شخص کو غیبت اور چغلی کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے، اگر کوئی شخص کسی کی مذمت بیان کرنے لگتا تو فوراً  اس کو ٹوک دیتے تھے۔اسی طرح اگر کوئی شخص آپ کی مجلس میں کسی عالم دین کا نام لے کر بغرض تردید مسئلہ پوچھنے لگتا تو آپ فوراً اُسے ٹوک دیتے اور فرماتے جس نے مسئلہ پوچھنا ہے، کسی عالم دین کا نام ذکر نہ کرے۔ایک دفعہ جامعہ محمدیہ نیائیں چوک میں آپ تشریف فرما تھے کہ ایک بندہ آپ سے ایک عالم دین کا نام لے کر مسئلہ پوچھنے لگا، آپ نے بڑی سختی سے اسے منع کیا اور اس قدر سرزنش کی کہ وہ بے چارہ اپنی حرکت پر بڑا نادم ہوا۔ اس طرزِ عمل سے وہاں بیٹھے ہوئے دوسرے لوگوں نے بھی عبرت حاصل کی اور کبھی آپ کے روبرو کسی شخص کی غیبت اور توہین کرنے کی جراَت نہ کی۔
ایک دفعہ کسی شخص نے آپ کے سامنے کہا کہ فلاں عالم دین کو کچھ نہیں آتا۔ آپ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا اسے (قُلْ ھُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ...) آتی ہے؟ تو وہ کہنے لگا کہ کیوں نہیں۔ آپ فرمانے لگے کہ تم تو کہہ رہے تھے کہ اسے کچھ نہیں آتا...!
اسی طرح ایک مرتبہ ایک شخص کہنے لگا کہ فلاں عالم نے بلوغ المرام کی شرح لکھی ہے اور کوئی مفید کام نہیں کیا، بلکہ صرف فلاں فلاں شرح سے نقل کرتے ہوئے کتاب بنا دی ہے۔ آپ فرمانے لگے کہ یہ علم نقل ہی پر مبنی ہے، پھر کیا ہوا اگر اس نے دیگر شروح سے نقل کرتے ہوئے ایک اور شرح لکھ دی ہے..؟
حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کے ایسے طرزِ عمل کی وجہ سے آپ کی مجالس میں کسی شخص کو غیبت اور چغلی جیسے مکروہ عمل کے ارتکاب کی جراَت نہیں ہوا کرتی تھی۔
استادِ گرامی مولانا عبداﷲ سلیم حفظہ اللہ  بیان کرتے ہیں کہ جب ہم مسجد مکرم اہلحدیث ماڈل ٹاؤن میں درسِ نظامی کے طالب علم تھے تو حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  ہمارا سالانہ امتحان لینے کے لیے تشریف لائے۔ جب امتحان ختم ہوا تو ہم طلبانے آپ کی خدمت میں گزارش کی کہ ہمیں کوئی نصیحت فرمائیں۔ آپ فرمانے لگے کہ میں اور حافظ عبدالسلام بھٹوی صاحب حضرت حافظ صاحب گوندلوی رحمہ اللہ  کی تیمار داری کرنے گئے تو ان سے عرض کی کہ استادِ محترم ہمیں کوئی نصیحت فرمائیں۔ یہ سن کر ہمارے شیخ حافظ صاحب گوندلوی رحمہ اللہ  فرمانے لگے کہ غیبت نہ کیا کرو۔ یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد حافظ صاحب نورپوری رحمہ اللہ  ہم طلبا کو فرمانے لگے کہ میں بھی تمھیں یہی نصیحت کرتا ہوں کہ غیبت نہ کیا کرو۔
    اعترافِ حق:
آپ کی للہیت اور تواضع کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی عالم دین یا طالب علم آپ کو کسی علمی معاملے میں سہو و نسیان پر متنبہ کرتا تو صحیح بات واضح ہونے کے بعد فوراً اسے قبول کر لیتے تھے۔ایک دفعہ اثنائے درس میں حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  نے ذکر کیا کہ صلوۃ الضحیٰ کی چار رکعات ہیں۔ میں نے عرض کی کہ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کی حدیث میں چار سے زائد رکعات کا ذکر بھی موجود ہے۔ آپ فرمانے لگے کہ کیا واقعتا ایسی روایت موجود ہے؟ میں نے عرض کی کہ میں نے خود پڑھا ہے۔ آپ فرمانے لگے کہ کتاب لے کر آؤ، جب میں نے کتاب سے یہ روایت ((أرْبَعَ رَکْعَاتٍ وَ یَزِیْدُ مَا شَاءَ)) [صحیح مسلم: ٧١٩] پیش کی تو آپ فرمانے لگے کہ درست ہے۔علومِ شریعت میں مہارت تامہ اور ژرف نگاہی اور سالہا سال کی تدریس و تعلیم کی وجہ سے اگرچہ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا تھا کہ نصوصِ شرعیہ میں سے کوئی چیز آپ کی یادداشت میں محفوظ نہ ہو لیکن اگر کبھی ایسا موقع آجاتا تو آپ صحیح بات کو قبول کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے۔
    نصیحت اور خیر خواہی:
آپ کا سارا وقت عامۃ المسلمین کی ہدایت و ارشاد کی خاطر درس و تدریس، دعوت و تبلیغ، دینی مسائل و احکام کی تحریری و تقریری ذمہ داری اور تصنیف و تالیف میں گزرتا تھا۔ جب کوئی شخص آپ کے گھر میں دینی راہنمائی کے لیے آتا تو آپ اپنے علمی و تصنیفی مشاغل چھوڑ کر ہمہ تن گوش اس کی طرف متوجہ ہوجاتے اور جتنی دیر وہ چاہتا، آپ کے پاس بیٹھا رہتا۔ آپ نے کبھی کسی قسم کی ناگواری اور اکتاہٹ کا اظہار نہیں کیا، بلکہ آنے والے شخص کی وقت اور موسم کے مطابق مہمان نوازی کرتے اور اصرار کے ساتھ اسے چائے پلاتے یا کھانا کھلاتے۔
استادِ گرامی مولانا عبداﷲ سلیم حفظہ اللہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کے گھر میں بیٹھا تھا تو آپ کو کسی نے فون کیا کہ ہم آپ سے ملنے آرہے ہیں، یہ فون کرنے والے ناواقف تھے اور کوئی دینی مسئلہ پوچھنے کے لیے آپ کے پاس آنا چاہتے تھے۔ جیسے ہی فون بند ہوا، حافظ صاحب رحمہ اللہ  نے گھر والوں کو کہہ دیا کہ دو بندے آرہے ہیں، ان کے لیے کھانا تیار کر دیں، چنانچہ جب وہ آپ کے گھر میں داخل ہوئے تو اس وقت تک کھانا بھی دستر خوان پر رکھا جا چکا تھا۔
سفر و حضر میں جہاں بھی آپ دروس کے لیے جاتے لوگ عموماً دروس کے بعد آپ کے اردگرد بغرض استفادہ اکٹھے ہوجایا کرتے تھے، عموماً یہ بابرکت مجالس کافی دیر تک لگی رہتی تھیں اور حافظ صاحب رحمہ اللہ  ہر شخص کے سوال کا جواب دیا کرتے تھے۔
فضیلۃ الشیخ مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی سفر پر میں حافظ صاحب رحمہ اللہ  کے ساتھ تھا، تو اس دوران میں آپ کے موبائل پر بار بار لوگوں کے فون آرہے تھے، میں نے یہ دیکھ کر کہا کہ اس سے بہتر ہے بندہ اپنے پاس موبائل ہی نہ رکھے۔ یہ سن کر حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  فرمانے لگے: اس سے بھی تو لوگوں کو فائدہ ہی ہو رہا ہے..!
عموماً لوگ ملک اور بیرون ملک سے دینی راہنمائی کے لیے آپ کو خطوط لکھا کرتے تھے، آپ ہر خط کا جواب لکھتے اور اپنی جیب سے ڈاک کے اخراجات برداشت کیا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں حیران کن بات یہ ہے کہ حافظ صاحب رحمہ اللہ  جو بھی جواب یا فتویٰ لکھتے، اس کو دو دفعہ اپنے ہاتھ سے لکھا کرتے تھے، ایک نقل سائل کو روانہ کرتے اور دوسری اپنے پاس محفوظ رکھا کرتے تھے۔ اور آج جوابات و فتاویٰ کا یہی محفوظ ذخیرہ ''احکام و مسائل'' کے نام سے مطبوعہ صورت میں لوگوں کے درمیان متداول ہے جو لوگوں کے لیے ایک بیش قیمت متاع ہے اور لکھنے والے کے لیے صدقہ جاریہ بھی۔ یقینا اس عمل میں بھی آپ کے پیش نظر عامۃ الناس کی خیر خواہی اور راہنمائی ہی تھی۔اللھم اغفرلہ وارحمہ وارفع درجتہ في أعلیٰ علیین.
    استقامت اور ثابت قدمی:
آپ کی صفات و خصائص میں استقامت اور اولو العزمی بھی ایک نمایاں خوبی تھی۔ جس عمل کو آپ حق اور درست سمجھا کرتے تھے، ہمیشہ اس کی پابندی کرتے اور اسے ترک کرنا قطعاً گوارا نہ کرتے تھے۔ مثلاً حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کیمرے سے تصویر اور ویڈیو بنانے کو حرام قرار دیتے تھے، چنانچہ ساری عمر اس سے شدید اجتناب کرتے رہے۔ آخری سالوں میں آپ اس فتنے کے شیوع و ظہور کی وجہ سے عموماً اپنے دروس کے آغاز میں فرمایا کرتے تھے کہ کوئی شخص میری تصویر اور مووی نہ بنائے، اور اگر کسی نے لاعلمی میں اس عمل کا ارتکاب کیا اور مجھے معلوم ہوگیا تو پھر مجھ سے جو ہوسکا میں اس کے ساتھ وہ سلوک کروں گا کہ وہ یاد رکھے گا، اور آخرت میں بھی وہ شخص جواب دہ ہوگا۔
مولانا عبداﷲ سلیم حفظہ اللہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حافظ صاحب رحمہ اللہ  رمضان کے مہینے میں درس قرآن کے لیے شیخوپورہ گئے، جب آپ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ویڈیو بنانے والا بندہ اپنے آلات کے ساتھ تیار کھڑا ہے۔ یہ دیکھ کر آپ نے درس دینے سے انکار کر دیا اور واپسی کا تہیہ کر لیا۔
منتظمین نے آپ کی منت سماجت کی اور ویڈیو نہ بنانے کا وعدہ بھی کیا، لیکن آپ اس جگہ درس دینے کے لیے راضی نہ ہوئے۔ بالآخر شرکائے مجلس کے شدید اصرار پر اس شرط کے ساتھ درس دینے کے لیے تیار ہوئے کہ سب لوگ اس عمل کو گناہ سمجھیں، اس سے توبہ کریں اور آئندہ کبھی اس کا ارتکاب نہ کرنے کا وعدہ کریں، اور جو دروس اب تک یہاں ماہِ رمضان میں ویڈیو پر ریکارڈ کیے گئے ہیں، ان سب کو ضائع کریں اور سی ڈیز توڑ ڈالیں۔ جب منتظمین جلسہ نے ایسا کرنے کا پختہ وعدہ کیا تو پھر آپ نے درس دیا۔
اسی طرح جب حافظ صاحب رحمہ اللہ  سعودی حکومت کی دعوت پر علماء کے وفد کے ساتھ حج کرنے گئے تو وہاں وفد کے ساتھ ایک مووی میکر تھا، جو ہر جگہ آتے جاتے پورے گروپ کی ویڈیو بناتا تھا، لیکن جب وہ حافظ صاحب رحمہ اللہ  کی طرف آتا تو آپ اسے کیمرہ پیچھے کرنے کا کہہ دیتے اور اسے اپنی مووی نہ بنانے دیتے تھے۔
آپ کی استقامت اور پامردی کا یہ عالم تھا کہ غمی و خوشی کے کسی موقع پر لوگوں کے ڈر اور ملامت کی پروا کیے بغیر جو حق سمجھتے اس پر عمل کرتے اور ہر طرح کے خلافِ شریعت معاشرتی رسم و رواج کو شدید نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ آپ کی زندگی میں آپ کی پانچ بیٹیوں کی شادیاں ہوئیں، آپ چونکہ بارات لانے کو غلط سمجھتے تھے، اس لیے ایک بھی موقع پر آپ کے گھر میں بارات نہیں آئی، اور نہ آپ نے بیٹیوں کی شادی میں اپنے کسی رشتے دار کو مدعو کیا۔ بڑی سادگی سے دو تین افراد کی موجودگی میں خود نکاح پڑھایا اور کسی اسراف و تبذیر اور خلافِ شریعت عمل کا ارتکاب کرنے کے بغیر انھیں رخصت کر دیا۔ اسی طرح اپنے بڑے صاحبزادے کے نکاح کے موقع پر برات لے کر نہ گئے، آپ مع اہلیہ بیٹے کے ساتھ گئے اور نکاح کر کے بہو لے آئے، البتہ تمام عزیز و اقارب کو دعوتِ ولیمہ میں مدعو کیا۔
ایسے محیر العقول واقعات دیکھ کر ہماری نگاہوں میں سید التابعین سعید بن مسیب رحمہ اللہ  کے اس واقعہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے کہ آپ کی عالمہ فاضلہ صاحبزادی کا رشتہ خلیفہء وقت عبدالملک بن مروان اپنے جانشین بیٹے ولید کے لیے طلب کرتا ہے، لیکن آپ اسے قبول نہیں فرماتے۔ پھر اسی صاحبزادی کو اپنے ایک شاگرد کی بیوی فوت ہونے پر تنہا جا کر اس کے حبالہ عقد میں دے آتے ہیں۔
    قناعت و توکل:
رضا بالقضا کا ایسا پیکر مجسم بھی کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا، آپ کی زبان سے کبھی اپنے حالات کا شکوہ کسی نے نہیں سنا ہوگا، ہر حال میں اﷲ کا شکر ادا کرنا  اور  اﷲ کے فیصلوں پر راضی رہنا آپ کی طبیعت ثانیہ تھی۔ آپ کو بھی دیگر لوگوں کی طرح ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑا، مشکلات و مصائب کا منہ دیکھنا پڑا، مختلف امراض کے حملوں کا متعدد بار نشانہ بننا پڑا، لیکن آپ کی زبان سے الحمدﷲ اور شکر الٰہی کے سوا کوئی دوسرا کلمہ ہم نے نہیں سنا۔ قناعت و توکل کی ایسی شاندار مثال آج کے مادی دور اور افراتفری کے عالم میں شاید ہی کہیں ملے۔ حدیث نبوی:((مَنْ رَضِیَ بِمَا قَسَمَ اﷲُ لَہُ، بَارَکَ اﷲُ لَہُ فِیْہِ وَوَسِعَہُ)) (مسند أحمد: ٥/ ٢٤) کے مصداق اﷲ تعالیٰ نے آپ کو اپنی برکت و رحمت سے استعفاف و استغنا ء جیسی نعمتوں سے نوازا تھا اور کسی کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے جیسی رذالت سے محفوظ رکھا تھا۔
حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  جب حج پر روانہ ہونے لگے تو انتظامیہ مدرسہ کی طرف سے آپ کو حج پر روانہ ہونے کی اجازت نہ دی گئی، لیکن آپ حج پر روانہ ہوگئے۔ جب تنخواہ دینے کا وقت آیا تو مدرسہ والوں نے آپ کی تنخواہ روک دی اور آپ کے گھر والوں کو کچھ بھی نہ دیا۔ گھر والوں نے حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کو اطلاع دی کہ مدرسہ کی طرف سے تنخواہ نہیں آئی اور گھر میں اخراجات کے لیے کوئی رقم بھی موجود نہیں۔ حافظ صاحب رحمہ اللہ  نے گھر والوں کو خط لکھا کہ رزق دینے والا اﷲ رب العالمین ہے، تم اسی پر بھروسا رکھو اور کسی بھی صورت میں تم نے مدرسے میں جاکر تنخواہ کا مطالبہ نہیں کرنا۔ آپ نے گھر والوں کو اس موضوع پر متعدد آیات و احادیث لکھ کر تسلی اور انھیں قناعت و توکل کی تلقین کی۔
ایسی مثالیں اور واقعات شاید لیلائے دنیا کے اسیروں کو عجوبہ اور مضحکہ معلوم ہوں، کیونکہ نفسی نفسی کے عالم میں اور افراتفری کے اس دور خراب میں ایسی چیزیں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔
کئی لوگوں کو، جو بڑے بڑے مناصب پر براجمان اور علم و فضل کے دعوے کرتے نہیں تھکتے، حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کے ایسے محیر العقول واقعات سنائے جاتے ہیں تو وہ حضرات جواب میں بے تکان فرما دیتے ہیں کہ ''یہ کون سی نیکی ہے...؟'' جس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ان لوگوں نے اپنے گردو پیش میں ایسی روشن مثالیں کہیں دیکھی نہیں اور نہ خود انھیں زہد و اتقا ء کی ایسی معراج نصیب ہوئی ہے۔
ذلک فضل اﷲ یؤتیہ من یشاء واﷲ ذو الفضل العظیم.
درحقیقت حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کی شخصیت ان تمام صفات جمیلہ اور خصائل حمیدہ کا مجموعہ تھی، جو مشکاۃِ نبوت سے تربیت پانے والوں کا خاصا ہیں، اور ایسی ہستیاں روز روز پیدا نہیں ہوتیں۔ مذکورہ بالا سطور میں آپ کی شخصیت کے چند نمایاں خدوخال پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو آپ کے عادات و خصائل کا محض ایک دھندلا سا عکس ہے، ایسی مجمع الصفات شخصیت کے جمیع محاسن کی تصویر کشی کرنا ہمارے بس میں نہیں۔
وَلَیْسَ عَلَی اﷲِ بِمُسْتَنْکِرٍ
أنْ یَّجْمَعَ الْعَالَمَ فِيْ وَاحِدٍ
ضرورت اس بات کی ہے کہ حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ  کے سوانح حیات اور علمی خدمات کے ساتھ ساتھ آپ کے عادات و اخلاق اور شمائل و خصائل کی روشنی میں ایک مفصل کتاب تیار کی جائے جو موجودہ اور آئندہ آنے والے لوگوں کے لیے نصیحت و موعظت کا مرقع اور اصلاح و ہدایت کا حسین گلدستہ ہو۔اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اس کارِ خیر کو انجام دینے کی توفیق دے اور اس سلسلے میں غفلت و نسیان اور کاہلی جیسی غیر محمود روش سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
آخر میں ایک خواب کا تذکرہ پیش خدمت ہے کہ استاد گرامی مولانا عبد اللہ سلیم صاحب بیان کرتے ہیں کہ وفات کے بعد میں نے حضرت حافظ صاحب کو خواب میں دےکھا تو آپ چارپائی پر بڑے سکون واطمینان کے ساتھ لیٹے ہوئے ہیں میں نے دریافت کیا استاد محترم آپ کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا ہے؟ توحافظ صاحب فرمانے لگے کہ کوئی مسئلہ نہیں ،میں تو بڑے آرام سے جنت میں داخل ہو گیا ہوں۔۔!